چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان ملک کے چوتھے مرکزی سیاسی رہنما بن گئے ہیں جنہیں پیمرا کی جانب سے محدود میڈیا کوریج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے قبل ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اس پابندی کا سامنا کر چکے ہیں۔
تاہم، عمران خان کی تقاریر دکھانے پر پابندی عائد نہیں کی گئی جس طرح دیگر تین رہنماؤں پر لگائی گئی تھی۔ پیمرا کے حکم نامے کے مطابق ٹی وی چینلز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ عمران خان کی تقاریر براہِ راست دکھاتے ہوئے delay-mechanism یعنی چند لمحے کی تاخیر سے ٹی وی پر ویڈیو کا جانا یقینی بنائیں تاکہ ان کی تقاریر میں کوئی اشتعال انگیز، نفرت انگیز یا کسی سرکاری افسر کے خلاف دھمکی آمیز پیغام ٹی وی پر نشر نہ ہو سکے۔
عمران خان کی تقاریر پر پابندی کے لئے پیمرا آرڈیننس 2002 کے سیکشن 20 استعمال کیا گیا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پیمرا کے حکم نامے میں اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں کی گئی ان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ دوبارہ پیش کیا گیا۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان اپنی تقاریر میں ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف 'اشتعال انگیز بیانات' کے ذریعے مسلسل 'بے بنیاد الزامات' اور 'نفرت انگیزی' پھیلا رہے ہیں۔
عمران خان نے اپنے خطاب میں ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف ایکشن کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ اسلام آباد کے آئی جی، ڈی آئی جی اور ریمانڈ دینے والی اس خاتون ’مجسٹریٹ‘ پر کیس کریں گے۔
پیمرا کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کی تقریر میں ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف ’نفرت انگیز، ہتک آمیز اور غیر ضروری’ بیانات تھے، جو آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہیں۔ پیمرا نے پہلے تین رہنماؤں کی تقاریر پر پابندی کے لئے ماضی کے عدالتی احکامات کا بھی حوالہ دیا۔
عمران خان کی تقریر نشر کرنے پر پابندی پر رد عمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماؤں نے اسے 'آمرانہ' اور 'فسطائی' عمل قرار دیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پیمرا کی جانب سے چیئرمین عمران خان کی براہِ راست تقاریر نشر کرنے پر پابندی کا فیصلہ برائے نام جمہوری حکومت کی بدترین آمریت کا نمونہ ہے۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے بھی ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی تقاریر ٹیلی کاسٹ پر پابندی سیاسی مسئلے کا انتظامی حل تلاش کرنے کی ایک اور کوشش ہے، اس کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی قیادت جو آج عمران خان پر پیمرا کے حکم کی مذمت کر رہی اور اسے آمرانہ اقدام قرار دے رہی، اس نے ماضی میں سیاسی رہنماؤں کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ اس عمل پر پیمرا کا دفاع بھی کیا۔
جب الطاف حسین، مریم نواز اور نواز شریف کی تقاریر کو پیمرا کی جانب سے پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا تو اسی پی ٹی آئی قیادت نے اس عمل کا جواز کچھ ایسے پیش کیا تھا:
ستمبر 2015 میں لاہور ہائی کورٹ نے الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر ناصرف پابندی لگائی گئی تھی بلکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ان کی تصاویر نہ چلانے کی بھی ہدایت کی تھی۔
اس وقت تحریک انصاف کے رہنماؤں شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری، منزہ حسن، عارف علوی اور شفقت محمود کی جانب سے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں مذمتی قرارداد جمع کرائی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ الطاف حسین کی فوج مخالف تقریر برداشت نہیں کی جائے گی جو ملک کے لئے بے شمار قربانیاں دینے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ تحریک انصاف نے مطالبہ کیا تھا کہ متحدہ کے قائد کے خلاف آئین کے مطابق ایکشن لیا جائے۔
قرارداد میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ حکومتِ پاکستان الطاف حسین کے خلاف کارروائی کے لئے برطانوی حکومت سے رجوع کرے، جس کا آئین اپنے کسی شہری کو اپنی سرزمین پر یا کسی دوسرے ملک میں نفرت پھیلانے کی پابندی عائد کرتا ہے۔
6 جولائی 2019 کو پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز کو لاہور میں مریم نواز کی پریس کانفرنس کی ’غیر ترمیم شدہ لائیو ٹیلی کاسٹ' نشر کرنے سے روک دیا تھا جہاں ان پر یہ الزام لگایا تھا کہ وہ عدلیہ کو بدنام کر رہی ہیں۔ پیمرا کا کہنا تھا کہ مریم کی تقریر اس کے آرڈیننس کے سیکشن 20 کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ پیمرا نے اُس وقت کہا تھا کہ مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس میں 12 ستمبر 2018 کو ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات کی توہین کی۔
اس وقت فواد چوہدری نے پیمرا کے اقدامات کو سراہتے ہوئے مریم نواز پر پابندی کو درست اقدام قرار دیا اور پریس کانفرنس بھی کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک ملزمہ کو عدلیہ، فوج، نیب اور دیگر اداروں کے خلاف تقریر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
جولائی 2019 میں پیمرا نے تین نجی ٹی وی چینلز، 24 نیوز، اب تک نیوز اور کیپیٹل ٹی وی کی نشریات بند کر دی تھیں۔ چینلز کی اس بندش کے بارے میں کوئی واضح صورتحال سامنے نہ آنے کی وجہ سے ان قیاس آرائیوں نے جنم لیا تھا کہ نشریات مبینہ طور پر مریم نواز کے جلسے کی کوریج پر بند کی گئیں۔
اکتوبر 2020 میں پیمرا نے چینلز کو مفرور اور اشتہاری مجرموں کی تقاریر، انٹرویوز اور عوامی خطاب نشر کرنے سے روک دیا تھا۔ ان ہدایات کا مقصد نواز شریف کی تقاریر کو نشر ہونے سے روکنا تھا۔ یہ حکم تین بار کے سابق وزیر اعظم کی جانب سے پارٹی اجلاس میں حکومت پر تنقید کے بعد آیا تھا جسے متعدد نیوز چینلز پر نشر کیا گیا تھا۔ نواز شریف پر عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے اور عدلیہ کو بدنام کرنے کا بھی الزام تھا۔
اس وقت کے وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا تھا کہ نواز شریف ایک اور الطاف حسین بن گئے ہیں۔ شبلی فراز نے الزام لگایا تھا کہ نواز شریف کی تقاریر اشتعال انگیز تھیں اور کہا کہ جب الطاف حسین کی تقاریر کو نشر کرنے کی اجازت نہیں تو نواز شریف پر قانون کا مختلف طریقے سے اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔
پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل جو اس وقت خود فوج مخالف بیان دینے کے جرم میں گرفتار ہیں نے متنبہ کیا تھا کہ اگر نواز شریف نے اے پی سی سے خطاب کیا اور ان کا خطاب نشر ہوا تو پیمرا اور دیگر قانونی آپشن استعمال ہوں گے۔ جب کہ اس وقت کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے بھی کہا تھا کہ پاکستان میں میڈیا کے نگران ادارے پیمرا کے ضابطہ کار کے تحت مفرور مجرم میڈیا سے خطاب نہیں کر سکتا۔ انہوں نے اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو ہدایت جاری کیں کہ اسے سوشل میڈیا پر بھی سزا یافتہ مجرم کا خطاب روکنا چاہیے۔
اب جب پی ٹی آئی خود پیمرا کے اس قانون کا شکار ہوئی اور پیمرا نے چینلز کو پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی لائیو تقریریں نشر کرنے سے روکنے کا حکم دیا ہے تو پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین نے بھی پیمرا کے اس اقدام کی مذمت کی اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
عمران خان کی قریبی ساتھی اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری حاضر نے کہا کہ سیاسی رہنماؤں کے خلاف یہ حرکتیں غیر منصفانہ ہیں۔ الطاف حسین، نوازشریف یا مریم نواز سے لے کر عمران خان تک، کسی کے بھی سیاسی ردعمل پر پابندی نہیں لگنی چاہیے۔
سینئیر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور، جس میں الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا سبھی موجود ہیں، ایسے میں کسی بھی طرح کی پابندیاں مؤثر نہیں رہتیں۔