اسلام آباد میں دھند چھٹ چکی ہے۔ اب جب کہ ملک ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے جو آنے والے کئی سالوں کے لئے ملکی سیاست کا رخ متعین کرے گا، وفاقی دارالحکومت میں ایک یکسوئی ہے جو ایک ایک کر کے تمام بڑے دفاتر کا رنگ تبدیل کرتی جا رہی ہے۔ رنگوں اور ہئیتوں کی یہ مسلسل تبدیلی ایک ہی سوال کے گرد گھومتی ہے:
انتخابات کب ہوں گے؟
ہر آدمی کا اپنا جواب ہے۔ ہر وقت کا اپنا جواب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سوال ایک طرف انتہائی سادہ دکھتا ہے لیکن دراصل انسان کو مشتعل کر دینے کی حد تک پیچیدہ ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے 9 مئی کے بعد اور اس سے پہلے والے تمام تنازعات، تضادات اور پیچیدگیاں اس ایک سوال میں آ کر مرکوز ہو گئی ہیں۔ اور اسی لئے تمام سٹیک ہولڈر اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنے الفاظ، خیالات اور اقدامات میں غیر معمولی احتیاط برتتے نظر آتے ہیں۔
دھند تو واضح ہے لیکن اس دھند میں سے اب یکسوئی اپنا سر باہر نکالتی نظر آنے لگی ہے۔ ریڈ زون کے اندر کی خبریں جاننے والے جو وفاقی دارالحکومت کے طاقتور حلقوں میں ہونے والی تمام حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھتے ہیں، اب سرگوشیوں میں بتا رہے ہیں کہ انہوں نے اس یکسوئی کی کچھ جھلکیاں دیکھی ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو حالیہ دو کابیناؤں کا حصہ رہے ہیں اور اب بھی سسٹم سے بہت قریب ہیں جب کہ سسٹم آنے والے خطرات سے نمٹنے کے لئے خود کو تازہ دم کرنے کی کوشش میں ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ انتخابات کے وقت کے حوالے سے تین ممکنات ہیں۔ پہلی یہ کہ واقعی الیکشن اپنی مقررہ 90 دن کی مدت میں ہو جائیں۔ دوسری یہ کہ نئی حد بندیاں ہونے کے بعد فروری 2024 میں کسی تاریخ کو انتخابات کروا دیے جائیں۔ اور تیسری یہ کہ یہ فروری کے بھی بعد۔۔۔ کبھی نا کبھی۔۔۔ کروا دیے جائیں۔
ان تین ممکنات میں سے کون سی ہے جو حقیقت کا روپ دھارے گی، اس کا فیصلہ تین اداروں پر منحصر ہے، اور ان میں ہونے والے فیصلے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں: سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن، اور اسٹیبلشمنٹ۔
آئیے ان تین ممکنات کا جائزہ لیتے ہیں:
90 دن: یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی اس دلیل کو مسترد کر دے کہ انتخابات نئی حد بندیوں کے بعد ہی ممکن ہیں اور آئین میں دی گئی مدت پر الیکشن کروانے کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے۔ عدالت کے سامنے پہلے ہی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو چیلنج کرتی متعدد درخواستیں موجود ہیں۔ ستمبر کے وسط میں ریٹائر ہونے سے قبل موجودہ چیف جسٹس اس حوالے سے کوئی فیصلہ دے سکتے ہیں۔ اگر انہوں نے واقعی الیکشن 90 دن میں کروانے کا حکم دے دیا تو پورا سسٹم گھوم کے رہ جائے گا۔
ایسی صورت میں باقی دو اداروں کا ردِ عمل بہت معنی خیز ہوگا۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں ایک نئی یکسوئی سامنے آتی ہے۔ الیکشن کمیشن اس ممکنہ فیصلے کے مضمرات پر غور و خوض کر چکا ہے اور اس کا فیصلہ حیران کر دینے والا ہے۔ حد بندیوں کے حق میں دلائل دیے جائیں گے لیکن سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ انتخابات 90 دن میں ہی کروائے جائیں تو پھر اس فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔
یہ بہت بڑی بات ہے!
تصدیق کی کوشش کی تو ایک سابق وزیر نے کہا کہ حقیقت یہی ہے۔ ان کے مطابق چیف الیکشن کمشنر مختلف اجلاسوں میں کہہ چکے ہیں کہ ECP سپریم کورٹ کے احکامات کی پابندی کرے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب الیکشن 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوگا اور حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا۔ کیا ECP نومبر کی ڈیڈلائن کو انتظامی طور پر یقینی بنا سکتا ہے؟ سابق وزیر کا جواب اثبات میں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ECP سربراہ دیگر پیچیدگیوں کے باوجود یہ کر گزریں گے۔
فروری آپشن: یہ اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ ECP کو حکم دے کہ حلقہ بندیوں کا کام مکمل کرے اور 90 دن کی ڈیڈلائن اس عمل کے مکمل ہونے تک آگے بڑھا دی جائے۔ یہ فیصلہ موجودہ چیف جسٹس کر بھی سکتے ہیں اور وہ وقت گزاری کر کے ریٹائر ہو سکتے ہیں اور اس فیصلے کو آنے والے چیف جسٹس پر بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ اگر یہ اجازت دے دی گئی تو باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ انتخابات فروری کے تیسرے ہفتے میں ہوں گے۔ اس وقت تک ECP حلقہ بندیاں مکمل کر چکا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق اگر فروری کے تیسرے ہفتے میں الیکشن ہو جاتا ہے تو مارچ میں سینیٹ الیکشن کے وقت سے پہلے ہی قومی اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آ جائیں گی اور الیکٹورل کالج بنا کسی تاخیر یا پیچیدگی کے پورا ہو جائے گا۔
فروری کے بعد والا آپشن: یہ وہ آپشن ہے جہاں چیزیں پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ الیکشن 6 ماہ سے آگے لے جانے کے لئے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو آئین کی خلاف ورزی کرنا ہوگی۔ ریڈ زون ذرائع کا ماننا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ اور سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کو موجودہ حالات میں اس کے لئے قائل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ لہٰذا یہ آپشن کسی سنگین اقدام کے نتیجے میں ہی حقیقت بن سکتا ہے اور اس کے بہت سے غیر ارادی نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔
مگر، ابھی اور بھی کچھ ہے۔
اگرموجودہ صورتحال نے حتمی طور پر انتخابات پر ہی منتج ہونا ہے تو فی الحال اس کے بہت سے اجزا کچن میں پھینٹے جا رہے ہیں۔ جلد بازی میں کی گئی قانون سازی، غیر دستخط شدہ قوانین، جیل کی سزائیں، ضمانتوں کی منسوخیاں، اتحادوں کا بننا، بگڑنا، سخت اقدامات، نرم اقدامات، اور یقیناً اس سنگین بحرانی صورتحال میں نگرانی کا عمل، یہ سب اجزا ابھی ایک ہانڈی میں بھرے جا رہے ہیں اور چولہا گرم ہو رہا ہے۔
نکتے ابھی آپس میں ملے نہیں ہیں۔ کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ اور بہترین منصوبے بھی ناکام ہوتے ہیں۔
اس دھند میں سے بیدار ہوتی یکسوئی آنے والے دنوں کا کچھ پتہ دے سکتی ہے۔ PDM اتحاد ایک بار پھر واپس آنے کی امید میں اقتدار سے باہر جا چکا ہے۔ لیکن اس کے اپنے چیلنجز ہیں۔ ایک نوجوان قوم کے سامنے پرانے گھسے پٹے چہرے – کیا یہ چل پائیں گے؟ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر پائیں گے؟ کیا انہیں اس کی پروا بھی ہے؟ جب آپ کو فتح پلیٹ میں رکھ کر دے دی جائے تو آپ اس سے غلط نتائج بھی اخذ کر سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کو اس کے لیڈر کے غرور نے تباہ کر دیا ہے۔ فی الحال اس کی واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ایک ایسی پارٹی جو ریس سے باہر ہو چکی ہو، اسے کیا فرق پڑتا ہے کہ الیکشن 90 دن میں ہوں یا 180 دن میں؟ امید ایک ظالم چیز ہے۔ خاص طور پر جب یہ صرف حقائق سے نظریں چرانے کی بنا پر بنی ہو۔
طاقت کا رخ اسے استعمال کرنے والے کی سعی متعین کرتی ہے۔ اب جب کہ پانچ بڑے یعنی نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان فی الحال ریاستی مشینری سے باہر ہو چکے ہیں، پانچ اور لوگ ہیں جو اپنی طاقت کے استعمال سے مستقبل کی سیاست کا رخ متعین کریں گے: وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر۔
ان میں سے زیادہ تر ایک نکتے پر تو متفق ہیں، لیکن اس نکتے تک پہنچنا کیسے ہے، کیا اس پر ان کا اتفاق ہوگا؟ یہی وہ مقام ہے جہاں سے دھند پیدا ہوتی ہے اور اسی سے یکسوئی کی شعائیں پھوٹتی ہیں۔
***
فہد حسین کا یہ مضمون The Friday Times پر شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔