پی ٹی ایم کے نعرے اتنے کڑوے کسیلے کیوں لگتے ہیں؟

اگر منظور پشتین اور ایمان مزاری کے نعرے سخت ہیں تو سختی کو جانچنے کی کوشش ہونی چاہئیے۔ اگر نعرے بے بنیاد ہیں تو اپنے مضبوط نعرے بنانے چاہئیں۔ زمینی حقائق سیاسی صورت حال کو واضح کرتے ہیں۔ سوویت یونین سے پہلے یہ نعرے کیوں نہیں لگے؟ مشرف و حمید گل سے پہلے یہ نعرے کہاں تھے؟

پی ٹی ایم کے نعرے اتنے کڑوے کسیلے کیوں لگتے ہیں؟

منظور پشتین ایک جنگ زدہ زمین کی کہانی کا کردار ہے جو ہر دستیاب پلیٹ فارم پر اپنی جنگ زدہ زمین کی پسِ پردہ کہانیاں سناتا ہے۔ ایک جنگ زدہ زمین میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے، یہ احوال منظور کی زبان پر ہر عام و خاص کے لیے دستیاب ہے۔ منظور کی امن کی کہانی اب ہر سو پھیل چکی ہے۔ اس میں جہاں ایک جانب ایلیٹ کلاس کی ایمان مزاری منظور کی کہانی کا کردار بن چکی ہے وہیں دوسری جانب پشتون بیلٹ کا ایک چرواہا بھی اس میں شامل ہے۔

پی ٹی ایم کے تخلیق کردہ زمینی حقائق پر کئی نعرے بن چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ منظور کے نعرے مرکز کے لیے پریشان کن رہے ہیں، مرکزی میڈیا پر بھی انہی بیانات کو متضاد بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے تاہم جب بھی حکومت تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہے تو وہی نعرے ان کو بھی اپنے لگنے لگتے ہیں، پسند آنے لگتے ہیں۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں منظور را کا ایجنٹ رہا لیکن بعد ازاں وہی را ایجنٹ کے نعرے عمرانی سپورٹرز کے گرد گھومنے لگے۔ عام عوام سے وزیروں تک سبھی نے انہی نعروں کا ورد کرتے ہوئے اپنی حصّے کی جنگ لڑی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، وغیرہ وغیرہ۔

اب منظور نے اسلام آباد میں عوامی اجتماع کیا۔ کسی نے کسی قسم کا تشدد نہیں کیا۔ نعروں و تقاریر پر جلسہ ختم ہوا لیکن انہی نعروں اور تقاریر کی وجہ سے علی وزیر اور ایڈووکیٹ ایمان مزاری گرفتار ہوئے۔ اب جب میں سوشل میڈیا دیکھ رہا ہوں تو ایمان مزاری پر الزامات، بہتان اور منفی پروپیگنڈا شروع ہو چکا ہے۔ کسی صاحب نے یہاں تک لکھا کہ میرے باعزت پشتون اس لڑکی کو کیوں جلسے میں دعوت دہے رہے ہیں جو فحش ہے، بے غیرت ہے؟

میں جب ماضی کو ٹٹولنے کی کوشش کر رہا ہوں تو خیال آ رہا ہے کہ پشتون بیلٹ میں ہو کیا گیا تھا کہ اتنے منفرد اور سخت نعرے تخلیق ہوئے، ہر عام و خاص نے ان نعروں کوکیوں اپنایا؟ منظور کی تقاریر میں ماؤں بہنوں اور گھروں کی چادر و چاردیواری کی بات شامل رہی ہے لیکن میرے سامنے ایسا کوئی ٹویٹ نہیں گزرا جس میں کسی نے ان حرکات کی مذمت کی ہو، ان حرکات کو بے غیرت لکھا اور کہا ہو۔

یہاں سیاسی قد اس قدر پستی کی آخری دہلیز تک پہنچ چکا کہ مضبوط سیاسی بیانیے کو دبانے کے لیے جب گرفتاریوں اور مقدمات سے بات نہ بنتی ہو تو بات شخصی کارناموں تک آ جاتی ہے۔ شخصیت کے منفی اور مثبت پہلو کو بیان کرنے والے ٹھیکیداروں کی مارکیٹ میں بھرمار ہو جاتی ہے۔

اگر منظور پشتین اور ایمان مزاری کے نعرے سخت ہیں تو سختی کو جانچنے کی کوشش ہونی چاہئیے۔ اگر نعرے بے بنیاد ہیں تو اپنے مضبوط نعرے بنانے چاہئیں۔ سماج وہ واحد شے ہے جو نعروں کو اپنانے اور مسترد کرنے کا دارومدار زمینی حقائق کے سپرد کرتا ہے۔ منظور کے نعرے نئے نہیں ہیں اور پرانے بھی نہیں تاہم جب سے تخلیق کے پروسیس سے گزرے ہیں، کارآمد ہیں۔ پشتون کا وجود نعروں سے پرانا ہے بلکہ بہت پرانا لیکن نعرے اسی وقت بنے ہیں جب پشتون نے اپنی زمین کو ہوبہو نعروں جیسا پایا ہے۔

زمینی حقائق سیاسی صورت حال کو واضح کرتے ہیں۔ سوویت یونین سے پہلے یہ نعرے کیوں نہیں لگے؟ مشرف و حمید گل سے پہلے یہ نعرے کہاں تھے؟ اگرچہ کسی بھی زمین کو کسی بھی عہد میں تخلیق کاروں کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ رہی بات غیرت کی تو غیرت بھی سماج طے کرتی ہے۔ اس فیصلے کو پشتون پر چھوڑا جائے کہ کہاں اور کس نے غیرت پامال کی ہے اور کس نے اس کی حفاظت کی ہے۔ پشتون یہ فیصلہ کرے کہ غیرت کا ٹھیکیدار کون رہے گا۔

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔