بے نظیر بھٹو، سانحہ پشاور کی برسیاں اور دہشت گردی کی نئی لہر

فاشزم کی طرح دہشت گردی بھی انسانیت کو نقصان پہنچانے والی خطرناک سوچ ہے۔ اس سے لڑنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اصل بنیاد کو سمجھا جائے۔ اسے صرف فوجی طاقت اور فضائی حملوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کے ارتکاز اور مالی وسائل پر کاری ضرب لگانا بھی ضروری ہے۔

بے نظیر بھٹو، سانحہ پشاور کی برسیاں اور دہشت گردی کی نئی لہر

27 دسمبر 2023 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی 16 ویں برسی منائی جائے گی۔ انہوں نے ان بدنام زمانہ دہشت گردوں کے خلاف دلیری سے مزاحمت کرتے ہوئے جان دے دی، جو پاکستان میں خون کی ہولی کھیل کر، انتہاپسندی کے راستے پر چلتے ہوئے، اسے جمہوری اور فلاحی ریاست کی راہ سے ہٹانا چاہتے تھے۔ ابھی ان کے اصل قاتلوں اور ان کے قتل کی سازش تیار کرنے والوں کو سزا ملنا باقی تھی کہ 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور میں پیش آنے والے ایک اور دلخراش سانحے نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ معصوم بچوں کی المناک شہادت نے ان تمام افراد کو انسانی ضمیر کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جو ان وحشی درندوں کو مذاکرات کے ذریعے قائل کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت اور آج بھی قوم کی ایک ہی پکار ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو مثالی سزا دی جائے اور پاک سرزمین کو دہشت گردی کے عفریت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات دلائی جائے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی افسوس ناک ہلاکت کے بعد پاکستان سنگین بحرانوں اور خطرناک مسائل میں الجھتا چلا گیا اور اب تو معاملات بہت پیچیدگی اختیار کر چکے ہیں۔ اس سے عوام کے دل میں یہ احساس شدت سے جاگزیں ہونے لگا ہے کہ پاکستان کو معاشی، سماجی اور سیاسی مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے درکار اہل اور دلیر قیادت کا بحران پہلے سے شدید تر ہو چکا ہے۔

آصف زرداری کی قیادت میں پی پی پی کے دور میں روا رکھی جانے والی ناقص حکمرانی نے ناصرف پاکستان کو بلکہ بھٹو کی عوام میں مقبول پارٹی کو سخت نقصان پہنچایا۔ ملک میں بدعنوانی نئی حدوں کو چھونے لگی، امن و امان کی صورت حال انتہائی ابتر ہوئی، اداروں کے مابین محاذ آرائی کی فضا پیدا ہوئی اور عوام کی معاشی پسماندگی میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا۔

پی پی پی کی قائم کردہ ان روایات کو نبھانے اور آگے بڑھانے میں پی ایم ایل ن نے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا تو ادھر قومی سیاسی منظرنامے پر ابھرنے والی تیسری طاقت، پی ٹی آئی نے بھی ثابت کیا کہ نعرے ایک طرف، پاکستان کے لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے ان کے پاس بھی عملی منصوبوں اور اہل افراد کی کمی تھی۔

آج کے پاکستان کی ملکی اور عالمی معاملات میں نمائندگی کرنے والا ایک بھی لیڈر ایسا نہیں جو عزم اور بصیرت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہم پلہ ہو۔

انتہا پسندوں کو ہر قیمت پر خوش کرنے، عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے میں حکمرانوں کی روا رکھی جانے والی روایتی سستی اور غفلت اور مخصوص حلقوں کی طرف سے انہیں تحفظ دینے کی کئی عشروں سے جاری ناقص پالیسی کا نقطۂ عروج پشاور خونریزی کی صورت میں سامنے آیا۔ تحریک طالبان پاکستان کے 7 دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کیا۔ یکے بعد دیگرے مختلف کلاس رومز میں جا کر انہوں نے 150 کے قریب معصوم طلبہ اور محترم اساتذہ کو بے دردی سے شہید کر دیا جبکہ اتنے ہی زخمی ہو گئے۔ دہشت گرد کوئی 9 گھنٹے سے زیادہ سکول میں موجود رہے، یہاں تک کہ بالآخر ایس ایس جی کمانڈوز نے انہیں ہلاک کر دیا۔

اس سے پہلے جی ایچ کیو راولپنڈی، پی این ایس مہران بیس کراچی، پی اے ایف بیس کامرہ اور عالمی واقعات، جیسا کہ افغانستان، عراق، شام ، لیبیا اور ایران کی صورت حال کو عالمی دہشت گردی کے ایسے تسلسل کے طور پر دیکھنا چاہئیے تھا جس کی بڑی حد تک ذمہ داری امریکی پالیسیوں پر تھی کیونکہ وہ طالبان اور دیگر انتہا پسندوں کو اپنی موجودگی برقرار رکھنے کا جواز فراہم کرتی تھیں۔

ابھی طالبان اور القاعدہ کا سر کچلا جانا باقی تھا کہ امریکیوں نے داعش نامی عفریت کو تخلیق کر ڈالا۔ یہ بے مقصد اور خودبخود رونما ہونے والے گروہ نہیں، بلکہ بہت مربوط اور نپی تلی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھے۔

نامور بھارتی سکالر Dr. Sachithanandam Sathananthan اپنے مضمون 'عظیم کھیل جاری ہے' میں لکھتے ہیں؛

' داعش کو ختم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بلکہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اسے اس کی مناسب حدود میں رکھا جائے اور اس کی صفوں سے دہشت گردوں کی نئی نسل کو تخلیق کیا جائے۔ القاعدہ، طالبان اور داعش دراصل واشنگٹن کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کا جواز استعمال کرتے ہوئے مختلف ممالک میں مداخلت کر سکے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اسے ہر ممکن طریقے سے بیجنگ سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ بلوچستان میں موجود توانائی کے وسائل سے استفادہ کیا جا سکے'۔

ابھی تک تجزیہ کاروں اور دانشوروں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے محرکات اس نئی 'گریٹ گیم' کے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ بینظیر بھٹو اپنی کتابReconciliation: Islam, Democracy & the West میں اسلامی دنیا کو درپیش مسائل کی وجوہ، امکانات اور ان کے حل پر روشنی ڈالتی ہیں۔ وہ نئے دور کی استحصالی طاقتوں کے ایجنڈے کا جائزہ لیتے ہوئے، مذہبی انتہا پسندوں اور پراکسی جنگوں کی اصلیت کو بے نقاب کرتی ہیں۔ وہ قرآن مجید کے تسلسل سے حوالے دیتے ہوئے اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے۔ وہ افسوس کرتی ہیں کہ انسانی قدریں رکھنے والے اس مذہب کو تاریخ کے ہر دور میں انتہا پسندوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا تاکہ معاشرے میں انتشار اور افراتفری پھیلا کر من پسند مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ وہ انتہا پسندی کے نظریے کے اجزا کا جائزہ لیتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہیں استعماری طاقتوں نے رائج کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ان نظریات نے ان طاقتوں کو فائدہ پہنچایا جو اسلامی دنیا کو تاریک دور میں دھکیلتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد کی بجاآوری چاہتے تھے۔

انہی طاقتوں کے تیار کردہ، پروردہ انتہا پسندوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی جان لی۔ یہ سوچا سمجھا قتل، ایک منظم سازش، صرف پاکستان کا ہی نہیں، بلکہ تمام اسلامی دنیا کا نقصان تھا جو ایک باخبر اور مثبت سوچ رکھنے والی شخصیت سے محروم ہو گئی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان ہو یا داعش، تمام انتہا پسند گروہوں کی عالمی ذرائع سے فنڈنگ ہوتی ہے۔ طالبان کی طرح بہت سے دیگر لشکروں کو مغربی طاقتوں اور امریکہ کی سی آئی اے نے اپنے ایجنڈے کے لیے تخلیق کیا تھا۔ ان کا مقصد ایٹمی پاکستان، جمہوری بھارت اور سوشلسٹ چین پر دباؤ برقرار رکھنا تھا۔ اس وقت پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس بات کے شواہد ملتے ہیں کہ ریاست پاکستان کے خلاف کام کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کو اندرونی اور بیرونی، کچھ مخصوص حلقوں کی طرف سے بھاری چندے ملتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں فعال گروہ ایک مخصوص نظریے سے اپنی وابستگی رکھتے ہیں؛ تاہم انہیں مذہبی گروہ کہنا درست نہیں، کیونکہ یہ سمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور منشیات فروشی کے ذریعے بھی رقوم حاصل کرتے ہیں۔ دراصل یہ مجرموں کے وہ گروہ ہیں جنہوں نے اپنے وقتی مقاصد کے لیے مذہب کا نقاب اوڑھ رکھا ہے۔

فاشزم کی طرح دہشت گردی بھی انسانیت کو نقصان پہنچانے والی خطرناک سوچ ہے۔ اس سے لڑنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اصل بنیاد کو سمجھا جائے۔ اسے صرف فوجی طاقت اور فضائی حملوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کے ارتکاز اور مالی وسائل پر کاری ضرب لگانا بھی ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی محض عسکری طاقت کا نام نہیں، یہ ایک نظریہ ہے جسے بدقسمی سے مذہب کا رنگ دے دیا گیا ہے۔

ہر سال جب ہم شہید بے نظیر بھٹو کو خراج تحسین پیش کر رہے ہوتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ تاحال ان کے اصل قاتلوں کو بے نقاب کیا گیا اور نہ انہیں سزا دی گئی۔ مگر یہ حقیقت اٹل ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں انتہا پسندی، تنگ نظری، مذہبی جنونیت و منافقت اور دہشت گردی کے سامنے کھڑے ہونے کی ضرورت پیش آئے گی تو شہید بے نظیر بھٹو کو ضرور یاد کیا جائے گا، چاہے کسی کو ان کی سیاست، خیالات یا نظریات سے اختلاف بھی رہا ہو۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔