Get Alerts

وہاڑی؛ لاکھوں کی تعداد میں خواتین ووٹ دینے سے کیوں گریزاں ہیں؟

گھریلو خواتین عام طور پر ووٹ کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہوتیں اور ووٹ ڈالنے کے حوالے سے بھی ان میں دلچسپی دکھائی نہیں دیتی۔ بنیادی طور پر وہ خود کو انتخابی عمل  کا حصہ ہی نہیں سمجھتیں۔ ان کے خیال میں ان کے ووٹ ڈالنے سے فرق نہیں پڑے گا اور ووٹ صرف وہی خواتین ڈالتی ہیں جن کا سیاست سے باقاعدہ لگاؤ ہوتا ہے۔

وہاڑی؛ لاکھوں کی تعداد میں خواتین ووٹ دینے سے کیوں گریزاں ہیں؟

وہاڑی کے علاقہ باغبان پورہ کی رہائشی ساجدہ لیاقت کہتی ہیں کہ ان کا ووٹ بنے اور ان کا نام ووٹرز لسٹ میں شامل ہوئے 16 سال ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے آج تک ووٹ نہیں ڈالا۔ اس کی دو وجوہات ہیں؛ ایک تو ہمارے ہاں سیاست دان جو الیکشن میں حصہ لیتے ہیں وہ اس قابل ہی نہیں کہ حلقہ کے عوام کی نمائندگی کر سکیں، دوسرا یہ کہ ہمارے ووٹ ڈالنے سے امیدوار کامیاب نہیں ہوتے بلکہ ان کا فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے، اس لیے ان کا خاندان الیکشن کے دن کو چھٹی کے دن کے طور پر گزارتا ہے۔

آئینی و جمہوری عمل کے بہترین انداز میں جاری رہنے کے لیے عام انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان انتخابات میں ملک کی تقریباً 50 فیصد آبادی پر مشتمل خواتین کا حق رائے دہی بھی اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں مردوں کے مقابلے میں کتنے فیصد خواتین رجسٹرڈ ووٹر ہیں، یہ بھی دلچسپ بات ہے لیکن کتنے فیصد رجسڑڈ خواتین ووٹرز انتخابات کے عمل میں حصہ لینے کے لیے اپنا حق استعمال کرتی ہیں، یہ بات اہم ترین ہے۔

2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع وہاڑی کی کل آبادی 29 لاکھ 2 ہزار 81 افراد پر مشتمل ہے جن میں 14 لاکھ 37 ہزار 989 خواتین شامل ہیں۔ ان خواتین میں سے 11 لاکھ 86 ہزار 7 سو 35 دیہات جبکہ 2 لاکھ 51 ہزار 254 شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔

مردم شماری 2023 کے مطابق وہاڑی کی کل آبادی 34 لاکھ 30 ہزار 421 ہو گئی ہے لیکن تاحال کل آبادی کے علاوہ دیگر تفصیل میسر نہیں ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 25 کے مطابق جب کوئی درخواست گزار شناختی کارڈ بنوائے تو اس سے ووٹ رجسٹریشن بارے پوچھا جائے کہ وہ اپنے عارضی یا مستقل پتہ پر ووٹ رجسٹر کرانا چاہتا ہے۔ سال 2017 میں شناختی کارڈ رجسٹریشن کے ساتھ ہی ووٹ رجسٹریشن کے عمل کا آغاز کیا گیا جس کا افتتاح اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا نے کیا تھا۔ 1973 سے جاری شناختی کارڈ رجسٹریشن کے عمل میں یہ ایک بڑا سنگ میل تھا۔

ووٹر رجسٹریشن کا عمل جب سے شناختی کارڈ بننے سے جڑا ہے، اس وقت سے جب بھی ووٹر رجسٹریشن کی بات کی جاتی ہے تب شناختی کارڈ رجسٹریشن کا بھی لازمی ذکر ہوتا ہے۔

وہاڑی میں قومی اسمبلی کے 4 جبکہ صوبائی اسمبلی کے 8 حلقے ہیں۔ عام انتخابات 2018 کے مطابق این اے 162 وہاڑی 1 میں رجسڑڈ ووٹرز کی کل تعداد 4 لاکھ 23 ہزار 613 تھی جن میں 2 لاکھ 38 ہزار 501 مرد جبکہ ایک لاکھ 85 ہزار 112 خواتین ووٹرز شامل ہیں۔ اس طرح مردوں کے مقابلے میں خواتین ووٹرز کی تعداد 53 ہزار 389 ووٹ کم تھی۔ اگر یہاں کاسٹ کیے گئے ووٹوں کی بات کریں تو اس حلقہ میں ایک لاکھ 39 ہزار 441 مردوں جبکہ 97 ہزار 409 خواتین نے ووٹ ڈالا۔ حلقہ میں پول شدہ ووٹوں میں مردوں کے ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 89 فیصد جبکہ خواتین کا 41 فیصد رہا اور پونے دو لاکھ کے قریب رجسٹرڈ خواتین ووٹرز میں سے 87 ہزار 703 خواتین نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔

وہاڑی کے دیگر 3 قومی اسمبلی کے حلقوں کی صورت حال بھی ویسی ہی ہے کیونکہ حلقہ این اے 163 وہاڑی 2، حلقہ این اے 164 وہاڑی 3 اور حلقہ این اے 165 وہاڑی 4 میں بھی خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ اعشاریوں کی کمی بیشی کے ساتھ 41 فیصد ہی تھا۔

سابق ممبر صوبائی اسمبلی میاں ثاقب خورشید کہتے ہیں کہ خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کم ہونے کی متعدد وجوہات ہیں۔ عام طور پر ہمارے ملک میں پولنگ سٹیشن کا ماحول خواتین کے لیے زیادہ موزوں نہیں ہوتا۔ مرد حضرات تو دھکم پیل کر کے اور گھنٹوں قطار میں کھڑے رہ کر ووٹ ڈال لیتے ہیں لیکن خواتین کے لیے یہ سب مشکل کام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل پولنگ سٹیشن پر خواتین کے لیے پینے کا صاف پانی، واش روم تک آسان رسائی، سایہ دار انتظار گاہ جیسی سہولیات بہت ضروری ہیں جو ہمارے ہاں موجود نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں مذہبی لحاظ سے بھی کچھ پابندیاں ہیں۔ بہت سے مرد حضرات خواتین کو پردے کی وجہ سے بھی پولنگ سٹیشن تک نہیں جانے دیتے اور سب سے اہم مسئلہ پولنگ سٹاف کا ناروا سلوک ہوتا ہے۔

ثاقب خورشید بتاتے ہیں کہ عام انتخابات 2018 کے دوران خواتین کے ایک پولنگ سٹیشن سے اطلاع موصول ہوئی کہ خواتین کو پولنگ سٹیشن میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا۔ 'جب ہم وہاں پہنچے تو صورت حال ایسی ہی تھی۔ پریزائیڈنگ افسر سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہماری مرضی ہے کہ کب ووٹ کاسٹ کرانا ہے اور کب انہیں اندر لانا ہے'۔ انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولنگ عملہ الیکشن ڈیوٹی کو قومی فریضہ سمجھ کر ادا کرے تو کچھ بہتری آ سکتی ہے۔

ضلع کی مجموعی صورت حال کی بات کریں تو قومی اسمبلی کے 4 حلقوں کے کل رجسڑڈ ووٹوں کی تعداد 15 لاکھ 55 ہزار 898 ہے جن میں 9 لاکھ 3 ہزار 471 مرد جبکہ 6 لاکھ 91 ہزار 822 خواتین ووٹر شامل ہیں یعنی رجسٹرڈ ووٹرز میں مرد اور خواتین کے ووٹوں کا فرق 2 لاکھ 11 ہزار 649 ووٹ ہے۔

2018 کے انتخابات کے دوران ان حلقوں میں کل پول شدہ ووٹوں کی تعداد 9 لاکھ 7 ہزار 323 ہے جن میں مردوں کے ووٹوں کی تعداد 5 لاکھ 37 ہزار 220 ہے جبکہ خواتین ووٹ 3 لاکھ 71 ہزار 103 ہیں اور ان کا فرق ایک لاکھ 66 ہزار 117 ہے۔

ضلعی الیکشن کمشنر وہاڑی حبیب اللہ جونیجو بتاتے ہیں انہیں وہاڑی میں تعینات ہوئے صرف 2 ماہ ہوئے ہیں اس لیے انہیں ووٹر ایجوکیشن اور رجسٹریشن بارے زیادہ علم نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر مہینے ووٹر ایجوکیشن کمیٹی کی میٹنگ کرتے ہیں، اس کے علاوہ وہ کچھ نہ بتا سکے۔ گذشتہ 3 سال میں نئے رجسٹرڈ ووٹرز اور ووٹر ایجوکیشن کے متعلق سرگرمیوں کی اقسام اور تعداد بھی وہ نہ بتا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں 45 فیصد نوجوان رجسڑڈ ووٹر ہیں جنہیں اپنا حق رائے دہی ضرور استعمال کرنا چاہئیے کیونکہ سابقہ انتخابات کے مطابق ہمارا ووٹر ٹرن آؤٹ ترقی یافتہ ممالک سے بہت کم ہے۔ خواتین، خواجہ سرا اور اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ووٹ کاسٹ کر کے جمہوری عمل کا حصہ بنیں۔

ضلع وہاڑی کے 4 قومی اسمبلی کے حلقوں میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد رجسٹرڈ خواتین ووٹر ووٹ ڈالنے نہیں گئیں جس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضلعی دفتر کی ووٹر ایجوکیشن کی کارکردگی کا پول بھی کھل گیا ہے۔ خواتین کے 41 فیصد ٹرن آؤٹ کا مطلب ہے کہ 100 میں سے صرف 41 خواتین نے ووٹ ڈالا جبکہ 59 خواتین نے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے نیشنل کوآرڈینیٹر رشید چوہدری کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر مردوں کے مقابلے میں خواتین کی رجسٹریشن ایک کروڑ کم ہے جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ عام انتخابات 2018 میں مجموعی ٹرن آؤٹ میں خواتین کا ووٹر ٹرن آؤٹ 10 فیصد کم رہا یعنی ٹرن آؤٹ پہلے کے مقابلے میں بہتر ہوا اور عام انتخابات 2024 میں مزید بہتر ہو گا کیونکہ الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی جانب سے ووٹر ایجوکیشن پر کام کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کا سیکشن 47 خواتین کی ووٹر رجسٹریشن میں اضافہ کے متعلق ہے جبکہ سیکشن 12 میں خواتین کے لیے ووٹر ایجوکیشن کمپین پر زور دیا گیا ہے تاکہ ٹرن آؤٹ میں اضافہ ہو سکے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سول سوسائٹی آرگنائزیشنز کو مل کر خواتین ووٹر رجسٹریشن اور ووٹر ٹرن آؤٹ بڑھانے کے حوالے سے کوششیں کرنی چاہئیں۔

سوشل ایکٹیوسٹ چوہدری وسیم باری جنہوں نے خواتین کی شناختی کارڈ رجسٹریشن پر کئی سال کام کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں جس ضلع میں 10 فیصد سے زائد خواتین غیر رجسٹرڈ تھیں وہاں پروجیکٹ شروع کیا گیا۔ وہاڑی میں غیر رجسٹرڈ خواتین کی شرح 13 فیصد تھی۔

وسیم باری کے مطابق انہیں جو علاقہ دیا گیا وہاں غیر رجسٹرڈ خواتین کی تعداد لسٹوں کے مطابق 92 ہزار 158 تھی جبکہ سروے کے دوران ان کی تعداد ایک لاکھ 18 ہزار ریکارڈ کی گئی۔ کورونا ایمرجنسی کے دوران 41400 خواتین کو رجسرڈ کیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے وہاڑی میں واقع دفتر کی جانب سے رجسٹریشن میں عدم دلچسپی دیکھنے کو ملی۔ ووٹر رجسٹریشن اور ووٹر ایجوکیشن کے لیے بنائی گئی ڈسٹرکٹ ووٹر ایجوکیشن کمیٹی بھی غیر فعال ہے جس سے ضلع میں ٹرن آؤٹ میں اضافہ نہیں ہو سکے گا جبکہ دیگر اضلاع میں یہ کمیٹیاں متحرک ہیں کیونکہ وہ صوبائی سلیکشن کمیشن کے ساتھ بھی پروجیکٹ کی وجہ سے رابطے میں ہیں۔

وسیم کا کہنا ہے کہ بہت سی خواتین رجسڑڈ ہونا چاہتی ہیں لیکن نادرا کی سخت شرائط کی وجہ سے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ کچھ سال پہلے تک شوہر کی رجسٹریشن کے لیے بیوی کا شناختی کارڈ جبکہ بیوی کی رجسٹریشن کے لیے شوہر کا شناختی کارڈ ہونا کافی ہوتا تھا لیکن اب خونی رشتے کے بغیر رجسٹریشن ممکن نہیں جبکہ پروجیکٹ کے دوران ایسے کیسز بھی دیکھنے میں آئے جن کے والدین اور بہن بھائی وفات پا جاتے ہیں اور شوہر طلاق دے دیتا ہے، ایسے کیسز کا نادرا کے پاس کوئی حل نہیں ہے سوائے اس کے کہ درخواست گزار عدالت سے رجوع کرے۔ عدالت میں جانے کے بجائے خواتین خاموش ہو جاتی ہیں اور رجسٹریشن کا عمل وہیں رک جاتا ہے۔

عام انتخابات 2018 کے مطابق قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 49 لاکھ 81 ہزار 940 تھی جن میں 5 کروڑ 86 لاکھ 92 ہزار 167مرد جبکہ 4 کروڑ 62 لاکھ 89 ہزار 773 خواتین ووٹرز شامل تھیں۔ ان میں سے پول شدہ ووٹوں کی کل تعداد 5 کروڑ 43 لاکھ 21 ہزار 31 ہے جہاں مردوں نے 60 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ 3 کروڑ 27 لاکھ 7 ہزار 767 ووٹ ڈالے جبکہ خواتین نے 40 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ 2 کروڑ 16 لاکھ 13 ہزار 264 ووٹ ڈالے۔ اس ڈیٹا کے مطابق خواتین کے ٹرن آؤٹ کا فرق 20 فیصد ہے جبکہ 21 قومی حلقوں میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 30 فیصد سے کم رہا۔ 5 حلقوں میں 20 فیصد سے کم رہا جبکہ 2 حلقے ایسے بھی ہیں جن میں خواتین کا ووٹر ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے بھی کم ریکارڈ کیا گیا۔

خیبر پختونخوا کے 98 صوبائی حلقوں میں سے 38 میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 30 فیصد سے کم رہا جبکہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے صوبائی حلقوں میں سے کسی بھی حلقہ میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 30 فیصد سے کم نہیں تھا۔

ضلعی صدر پاکستان مسلم لیگ ن وومن ونگ نوشین ملک کا کہنا ہے کہ بلاشبہ خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن میں اضافہ بہت ضروری ہے لیکن اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے سرگرمیاں نہ ہوںے کے برابر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین ووٹرز رجسٹریشن کے لیے کارنر میٹنگز پورا سال جاری رہیں۔ کوشش کی ہے کہ خواتین کی دہلیز کے قریب ہی میٹنگز رکھی جائیں تاکہ انہیں شامل ہونے میں آسانی ہو۔ اس کے علاوہ لوگوں کے گھروں میں جا کر ووٹ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ گھریلو خواتین عام طور پر ووٹ کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہوتیں اور ووٹ ڈالنے کے حوالے سے بھی ان میں دلچسپی دکھائی نہیں دیتی۔ بنیادی طور پر وہ خود کو انتخابی عمل  کا حصہ ہی نہیں سمجھتیں۔ ان کے خیال میں ان کے ووٹ ڈالنے سے فرق نہیں پڑے گا اور ووٹ صرف وہی خواتین ڈالتی ہیں جن کا سیاست سے باقاعدہ لگاؤ ہوتا ہے لیکن ہماری محنت کی وجہ سے اب خواتین میں اس حوالے سے اطمینان پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں وہاڑی میں خواتین ووٹرز کے ٹرن آؤٹ میں واضح اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ اس کے علاوہ خواتین کی ٹیمیں تشکیل دی جا رہی ہیں جو میلسی، بوریوالا اور وہاڑی میں پولنگ سٹیشن تک خواتین کی رہنمائی کریں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ پارٹی پالیسی کے مطابق بھی خواتین کے کردار کو اہم سمجھا گیا ہے اور ان کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔