Get Alerts

این اے 75 انتخابی نتائج کیس: لیگی اُمیدوار کا پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کا مطالبہ

این اے 75 انتخابی نتائج کیس: لیگی اُمیدوار کا پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کا مطالبہ
چیف الیکشن کمیشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ  ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات سے متعلق اہم کیس کی سماعت کررہا ہے

اس کیس میں لیگی امیدوار نوشین افتخار اپنے وکیل سلمان اکرم راجہ کے ہمراہ کمیشن میں پیش ہوئیں،۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سیالکوٹ کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 75 سے پولنگ نتائج غائب ہونے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران نون لیگ کے وکیل نےالیکشن ڈے پر ہونے والی بے نظمی کی ویڈیو عدالت کو دکھا دی۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے کیس کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت مسلم لیگ نون کی امیدوار و رہنما نوشین افتخار، مریم اورنگ زیب، خرم دستگیر، حلقے کے آر او، پی ٹی آئی کے وکیل علی بخاری، مسلم لیگ نون کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور جہانگیرجدون الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔

نون لیگ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کا ڈسکہ الیکشن پر پریس ریلیز تاریخی ہے، پریزائڈنگ افسران کی گمشدگی اس دھاندلی سے توجہ ہٹانے کیلئے تھی، اس دن حلقے میں فائرنگ ہوتی رہی، خوف کا ماحول پیدا کیا گیا، کورونا وائرس کی ایس او پیز کو ووٹرز کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کیلئے استعمال کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ووٹرز اپنا حق استعمال کیئے بغیر چلے گئے، صرف پریزائڈنگ افسران کی گمشدگی کا معاملہ نہیں، معاملہ اس لیے لایا جا رہا ہے تاکہ پورے حلقے سے توجہ ہٹا دی جائے، ہم حلقے کی صورتِ حال سے متعلق دستاویزات بیانِ حلفی کے ساتھ جمع کرائیں گے، پورے الیکشن کا جائزہ لینا ہوگا، ورنہ توجہ صرف 20 پولنگ اسٹیشنز پر رہے گی۔

این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں ریٹرننگ افسر نے بد نظمی کی تفصیلات الیکشن کمیشن کے سامنے رکھ دیں۔

ریٹرننگ آفیسر نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ حلقے میں 360 پولنگ اسٹیشنز تھے، پونے 2 بجے تک 305 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج آگئے، 337 پولنگ اسٹیشنز کا اندراج ساڑھے 3 بجے تک ہو چکا تھا، 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج میں تاخیر پر ان سے رابطے کی کوشش کی گئی، 19 پریزائیڈنگ آفیسرز سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا، صرف ایک کو بیل جا رہی تھی، پولنگ اسٹیشن کا تیس چالیس کلومیٹر کا فاصلہ تھا، 3 کا نتیجہ پاس تھا لیکن ہم اندراج نہیں کر پا رہے تھے کیونکہ باہر ہجوم تھا۔

چیف الیکشن کمشنر نے ان سے سوال کیا کہ موبائل پولیس ساتھ تھی، کیا ان سے وائرلیس پر رابطہ کیا گیا؟

ریٹرننگ آفیسر نے بتایا کہ پولیس سے وائرلیس پر رابطہ نہیں ہو رہا تھا، موسم بھی خراب تھا، باقی نتائج ہمیں واٹس ایپ پر موصول ہوئے تھے، امیدواروں کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس واٹس ایپ پر نتائج آگئے ہیں، ہم نے ان سے کہا کہ وہ نتائج ہمیں دیں، جو انہوں نے ہمیں فراہم کیئے، 17 پولنگ اسٹیشنز سے ڈیٹا ملنے کے بعد ہم نے اسے امیدواروں کے دیئے گئے نتائج سے میچ کیا، الیکشن مواد ہماری کسٹڈی میں ہی ہے۔

اس موقع پر نوشین افتخار نے متنازع 20 پولنگ اسٹیشنز کے اپنے فارم 45 الیکشن کمیشن کے حوالے کر دیئے۔

ریٹرننگ آفیسر نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ 4 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج میں کوئی فرق نہیں ہے، شکایت گزار کے فراہم کردہ فارم میں کئی پر انگوٹھے نہیں لگے ہوئے، فائرنگ ہوئی، ہنگامے کی بھی اطلاعات آئیں، پولنگ اسٹیشن کے باہر فائرنگ سے پی ٹی آئی اور نون لیگ کا ایک ایک کارکن جاں بحق ہوا۔

ممبر الیکشن کمیشن ارشاد قیصر نے استفسار کیا کہ فائرنگ کے بعد ووٹر ٹرن آؤٹ کیا رہا؟

ریٹرننگ آفیسر نے بتایا کہ فائرنگ کے بعد ووٹر ٹرن آؤٹ کچھ کم ہوا، پولنگ اسٹیشن کے اندر فائرنگ نہیں ہوئی، پریزائیڈنگ افسران سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ دھند تھی یا گاڑی خراب ہو گئی، راستہ دور تھا۔

ممبر الیکشن کمیشن ارشاد قیصر نے سوال کیا کہ آپ نے الیکشن کمیشن کے ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا گاڑی خراب ہوئی؟ 30 کلو میٹر کا راستہ کتنی دیر میں طے ہوتا ہے؟

ریٹرننگ آفیسر نے بتایا کہ صاف موسم میں ڈیڑھ دو گھنٹے لگ جاتے ہیں، ہم نے پریزائیڈنگ افسران کو بیان لینے بلایا تھا، ہمارے پاس 20 میں سے سب پریزایڈنگ افسران بیان دینے دوبارہ نہیں آئے، سات، آٹھ پریزائیڈنگ افسران نے ہمیں تحریری بیان دیا ہے۔

ممبر الیکشن کمیشن الطاف ابراہیم قریشی نے سوال کیا کہ آپ کے پاس ڈرائیور کا موبائل نمبر تھا؟ کیا آپ نے موبائل کمپنی سے ان کی لوکیشن معلوم کی؟ کیا وہ آپ کا فون نہیں اٹھا رہے تھے؟

سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ جب آپ نے الیکشن کی رات ہم سے رابطہ کیا تھا تو آپ بہت گھبرائے ہوئے تھے

ریٹرننگ آفیسر نے بتایا کہ باہر ہجوم بہت زیادہ تھا۔

مسلم لیگ نون کی امیدوار نوشین افتخار نے بیان دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ضمنی الیکشن کے دوران پولیس والے نے میری چادر کھینچی، ڈنڈے برسائے گئے، ہم نے پولنگ رکنے کی شکایت کی تھی، ڈی ایس پی نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو گولی مار دوں گا۔

نوشین افتخار کا کہنا تھا کہ نون لیگ اس حلقے سے 5 بار جیتی ہے، یہ مسلم لیگ نون کا گڑھ ہے، مجھے توقع نہیں تھی کہ ڈسکہ میں لوگ قتل ہوں گے، یہ این اے 75 کے لوگوں کی جنگ ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی بخاری نے دلائل دیئے کہ نون لیگ ہار جاتی ہے تو کہتی ہے کہ الیکشن متنازع ہے، 2018ء کے الیکشن میں بھی بندے مرے تھے۔

پی ٹی آئی کے امیدوار اسجد ملہی نے کہا کہ فائرنگ سے پی ٹی آئی کو نقصان ہوا، رزلٹ واٹس ایپ پر آ چکے تھے، پریزائیڈنگ افسران نہیں پہنچے تھے۔

الیکشن کمیشن آ ف پاکستان نے کیس کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔