سپریم کورٹ نے مبینہ امریکی سائفر کی تحقیقات کے لئے انکوائری کمیشن تشکیل دینے کے لئے دائر تینوں اپیلیں خارج کردیں۔
سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواستوں پر عائد اعتراضات کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ سائفر تحقیقات کے لئے اپیلیں ایڈووکیٹ ذوالفقاربھٹہ، سید طارق بدر اور نعیم الحسن نے دائر کی تھی۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے اپیلیں اعتراض عائد کرتے ہوئے واپس کر دی تھیں۔ درخواست گزاروں نے رجسٹرار آفس کے اعترضات کے خلاف چیمبر اپیلیں دائر کی تھی۔
دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سائفر کی تحقیقات کروانا حکومت کا کام ہے۔ عدالت کیوں مداخلت کرے؟ کیا فارن افیئرز ڈیل کرنا عدالت کا کام ہے؟ جس وقت سائفر سامنے آیا اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے؟ وکیل درخواست گزار جی ایم چوہدری نے بتایا کہ جی بالکل عمران خان نے بطور وزیراعظم سائفر جلسے میں لہرایا تھا۔
جسٹس عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مبینہ بین الاقوامی سازش کے تحت عمران خان کی حکومت گرانے کے معاملے کی تحقیقات اس وقت کے وزیراعظم چاہتے تو خود کروا سکتے تھے۔ وزیراعظم چاہتے تو سفارتی سطح پر تعلقات کو منقطع کر سکتے تھے۔ عدالت قیاس آرائیوں پر یقین نہیں رکھتی، سنی سنائی باتوں پر تحقیقات کا حکم کیسے دے سکتی ہے۔
معزز جج نے مزید کہا کہ حکومتی اختیارات میں مداخلت نہیں کریں گے اور نہ حکومت کو اپنے اختیارات میں مداخلت کی اجازت دیں گے۔ عدالتوں کے پاس اپنے کرنے کے بہت کام ہیں۔ جس کا جو کام ہے وہاں تک رہے تو ملک بہتر چلے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کاغذ لہرا کر الزام لگاؤں کہ مجھے فلاں وکیل نے قتل کی دھمکی دی۔کیا اس طرح ایف آئی آر درج ہوجائے گی؟
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ سائفر کی تحقیقات بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سائفر سے آپ کی اور میری زندگیوں پر کیا اثر پڑا ؟ اس کیس میں بنیادی حقوق کا کوئی معاملہ نہیں۔ یہ سفارتی معاملہ ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک وکیل نے بتایا کہ اس سائفر پر ڈیمارش بھی ہوا تھا۔جسٹس عیسیٰ نے سوال کیا کہ ڈیمارش کیا ہوتا ہے بتائیے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ اُن کو اس لفظ کا مطلب نہیں معلوم۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اگر چاہے تو دنیا بھر کے سائفر پبلک کر سکتی ہے۔ کوئی دوسرا ایسا کرے گا تو سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔
وکیل جی ایم چوہدری نے پاکستان کمیشن آف انکوائری کا حوالہ دیا جس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ کمیشن آف انکوائری ایکٹ میں انکوائری کمیشن بنانےکا اختیاربھی حکومت کے پاس ہے۔
واضح رہے کہ 20 فروری کو مبینہ امریکی سائفر کی تحقیقات کے لیے دائر چیمبر اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھیں۔
اس سے قبل جسٹس سردار طارق مسعود نے سائفر کی تحقیقات کے لیے دائر اپیلیں سننے سے معذرت کی تھی جس پر سائفر تحقیقات کے لیے دائر اپیلیں واپس چیف جسٹس کو بھجوائی گئی تھیں۔
ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ سمیت دیگر نے سائفر کی تحقیقات کے لیے درخواستیں دائر کی تھیں تاہم رجسٹرار آفس سپریم کورٹ نے درخواستوں پر مختلف اعتراضات عائد کر کے واپس کر دیا تھا۔ جس کے بعد ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ سمیت دیگر نے رجسڑار کے اعتراضات کے خلاف چیمبر اپیلیں دائر کر دی تھیں۔