"نولکھی کوٹھی" پر تبصرہ

تقسیم پر کئی ناول لکھے گئے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ واقعہ ہی اتنا سنگین تھا کہ تخلیق کاروں نے تخلیق تو کرنی ہی تھی۔ یہ ناول بھی ان ناولوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اور کئی فکشن نگاروں کے ساتھ ہی علی اکبر ناطق بھی اس تقسیم کے خلاف ہیں۔ کہانی جس طرح شروع کی اس سے بالکل یہ نہیں لگ رہا تھا کہ اب یہ کہانی تقسیم تک بھی پہنچے گے۔ دو سرداروں کی لڑائی، جو ہرگز مذہب کی بنا پر نہیں تھی، شروع ہوئی جس میں اسسٹنٹ کمیشنر "ولیم" کا ایک بہت اہم کردار ہے۔ لڑائی کروانے میں نہیں بلکہ اس ناول میں۔ ولیم ہی تو بنیادی کرادار سر انجام دے رہا ہے۔


ناول کا عنوان بھی اسی کوٹھی کے نام پر ہے جس میں ولیم رہتا تھا۔ ولیم خود کو ہندوستانی سمجھتا تھا مگر تقسیم کے بعد مسلمانوں نے اس کو پاکستانی نہ بننے دیا۔ نولکھی کوٹھی اس علاقے میں آ گئی تھی جو حصہ پاکستان بن گیا تھا۔ ولیم بھی اس سر زمین کو اپنی زمین کہہ سکتا تھا۔ اس میں کیا قباحت تھی؟ یہ کہاں لکھا ہے کہ جس کی سفید چمڑی ہوگی وہ انگلستان کا رہنے والا ہے؟ کہیں بھی نہیں۔ ہم بھی تو اس سرزمین کو اپنا نہیں کہہ سکتے۔ موہنجوداڑو اور ہڑپا کی تہذیب سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ ہم تو اس تہذیب کے قاتل تھے۔ ہم نے آ کر ان لوگوں کو یہاں سے نکالا تھا، بھگایا تھا۔ پھر ہم جب فخر سے اُس تہذیب کو اپنی تہذیب کہتے ہیں، محض وہی خطہ ہونے کی وجہ سے تو جو اِدھر آئے اور رہے اور اس ملک کو اپنا ملک سمجھا وہ اسے اپنا ملک کیوں نہیں کہہ سکتے؟


لکھاری مولویوں کو میٹھی میٹھی لگا رہا ہے۔ ناطق صاحب نے کئی جگہ پر مولویوں پر طنز کے تیر چلائے ہیں اور اس وقت تو جب کسی انگریز کو یہاں رکنے نہیں دیا گیا، وہ بھی الزام مولوی کے سر کر دیا۔ مولویوں نے ہی اس خطے کو مسلمانی قرار دیا تھا۔


ایسا نہیں کہ انگریز نے آ کر اس ملک کو سنوارا اور پہلے یہ ملک بھدا تھا۔ لیکن یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ اس خطے میں جو جدت آئی وہ ان کے آنے سے ہی آئی۔ میں ان کے راج کی حمایت نہیں کر رہا مگر جو سچ ہے وہ سچ ہے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ برا سلوک بھی برتا، ہماری شناخت سرے سے مٹا دی اور بھی نہ جانے کیا کیا کچھ مگر کچھ انگریز ایسے ضرور تھے جو اس ملک کو اپنا سمجھتے تھے، جو کالوں کو غلام نہیں سمجھتے تھے۔ اور نہ ہی بے عقل سمجھتے تھے۔ ہاں، انہیں یہ علم تھا کہ یہ آپس میں خود ہی لڑ مر رہے ہیں تو یہ کوئی اتنے عقلمند بھی نہیں۔ William Darlymple کی White Mughals میں ایسے کئی انگریزوں کی بابت لکھا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ لکھاری نے بھی یہ کتاب پڑھ رکھی ہو۔ تب ہی متاثر کُن انداز سے وہ احوال بتلائے ہیں۔



ناول نگار کے اندازِ بیاں پر آتے ہیں۔ علی اکبر ناطق نے باکمال انداز سے جزئیات بیان کی ہیں کہ کوئی بھی پڑھ کر ناطق صاحب کی دنیا میں جا سکتا ہے۔ مگر اس دور کے حساب سے انہوں نے ضرورت سے زیادہ جزئیات بیان کی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی ناول نگار کو وہ دکھانا چاہیے جو وہ قاری کو دکھانا چاہتا ہے، نہ کہ وہ جو وہ خود دیکھ رہا ہے۔ اب لوگ عدیم الفرصت ہو چکے ہیں اور بے جا طول دیے گئے ناول کو پسند نہیں کیا جاتا۔ جو کہانی پہلے مکمل ہو سکتی تھی، اس کو جزئیات کی وجہ سے طول دے کر اور لمبا کر دیا۔ کہیں جزئیات ضروری تھیں اور وہاں دی بھی گئیں مگر جہاں اتنی جزئیات کے بغیر کام چل سکتا تھا تو لکھاری کو چاہیے تھا کہ کام چلا لیتا۔


اور کچھ نہیں۔ یہ ناول تقسیم پر ہے اور اسی طرح کے گھمسان کا اور قتل و غارت کا ذکر ہے، عورتوں کو اٹھانے کا ذکر ہے مردوں کے گلے کاٹنے کا ذکر ہے، اور عام لوگوں کا نام نہاد لیڈروں کی زبان سے تعصبات کا شکار ہو جانا اور اپنے مخالف مذہب سے متنفر ہو جانا، ان سب کا اس ناول میں اچھی طرح ذکر ہے۔ باقی یہ ایک نہایت ہی اچھا ناول ہے مگر اگر جزئیات میں کچھ کمی کر لیتے تو یہ اپنے درجے سے کچھ اوپر آ جاتا۔ میں نے اس بابت اپنے ایک استاد سے بھی بات کی تھی، انہوں نے میری رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا کہنا بھی درست ہی تھا، کہ لکھاری پر ایک بڑی ذمہ داری تھی کہ اس نے اس دور کے لوگوں کو صدی پیچھے لے جانا تھا۔ یہ ذمہ داری پوری کرنے کے لئے جزئیات کا استعمال کیا گیا ہے اور میرے استاد کے بقول بہتر استعمال کیا ہے۔ ان کے کہنے سے میں نے کچھ لچک تو پیدا کی مگر ابھی بھی اس میں کئی مقامات ہیں جو کم جزئیات طلب تھے۔ تقسیمِ برِ صغیر کے بارے میں جاننے کے خواہشمند کو یہ ناول بھی ضرور پڑھنا چاہیے۔ اگر "اداس نسلیں" پڑھ رکھا ہے تو بھی اسے پڑھا جائے، اس کی دنیا اُس کی دنیا سے مختلف ہے۔ اختر مرزا