وطن عزیز میں جس زبان کا ادب سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے وہ اردو ہے ،اردو کی شاعری افسانہ اور ناول کے قارئین کی تعداد ملک میں بولی جانے والی دیگر علاقائی زبانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ،اردو ادب میں ناول نگاری کی روایت بہت توانا ہے اور پچھلے سو سالوں میں بہت جاندار ناول لکھے گئے ہیں ڈپٹی نزیر احمد سے لے کر آج کے ناول نگاروں تک ایک خزانہ ہے جو اردو ادب میں ناول کی صورت میں موجود ہے۔
حفیظ خان آج کے عہد کے بڑے ناول نگار کے روپ میں سامنے آ چکے ہیں جو تواتر سے ناول لکھ رہے ہیں اور اپنی ادبی اور تخلیقات سے اردو ادب کے آسمان پر ایک چاند کی صورت میں چمک رہے ہیں۔
حفیظ خان کا ناول ٫کرک ناتھ، شائع ہوا ہے کرک ناتھ مرغوں کی اس قسم کو کہتے ہیں جن کا خون اور ہڈیاں سیاہ ہوتی ہیں اسی علامت کو بنیاد بنا کر حفیظ خان نے اپنے ناول کا تانا بانا بنھا ہے کمال مہارت سے لکھا ہے علامتی افسانہ نے اردو فکشن سے جب قاریین کو دور کیا تو اردو کے فکشن لکھنے والوں نے ناول راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا اور کمال کر دیا پچھلے چند سالوں میں اردو میں بہت سے ناول لکھے گئے اور جو قارئین علامتی افسانہ کے باعث دور ہو رہے تھے وہ اردو فکشن کی طرف لوٹ آئے عہد جدید میں خالد فتح محمد اور حفیظ خان اردو ناول کو ایک بار پھر بلندی کی طرف لہے کر جا رہے ہیں۔
حفیظ خان وفاقی دارالحکومت میں مقیم ہیں اور اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں موجودہ نظام حکومت کو بہت بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں اور اس نظام کی خامیوں اور کوتاہیوں سے مکمل ادراک رکھتے ہیں۔ بقول حسن نثار صاحب کہ جب تک اس نظام کو تیزاب سے غسل نہیں دیا جائے گا تب یہ نظام عوام دشمن ہی رہے گا۔ پاکستان کی نوکر شاہی انتظامیہ ،مقننہ اور عدلیہ عوام دوست نہیں اوپر سے جمہوریت کے نام لیواؤں نے نہ صرف اپنے سیاسی کارکنوں اور اپنی اولادوں دونوں کو جاہل رکھا ہوا ہے۔
آج انکی تیسری اور دوسری نسلیں ہم پر حکومت کرنے کے لیے پر تول رہی ہیں ،وطن عزیز نے فوجی صدراتی نظام دیکھے اور پارلیمان کی جمہوریت بھی دیکھی مگر عوام کے مسائل حل نہ ہوئے ،حفیظ خان کے ناول کے کردار اسی نظام سے فائدہ اٹھانے والے وہ سیاہ خون اور سیاہ ہڈیوں والے نوکر شاہی سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ کے نمائندے ہیں جو ہمارے خون چوس رہے ہیں۔
حفیظ خان نے بڑی مہارت سے بیانہ انداز میں اپنا مدعا بیان کیا ہے اور اس نظام کو عریاں کر دیا وفاقی دارالحکومت میں جو نوکر شاہی اور سیاستدانوں کا جو گٹھ جوڑ ہے وہ کس طرح خوبصورت اور خوبرو لڑکیوں کے زریعے ایک سسلین مافیا کا روپ دھار چکا ہے، ہر آنے والی حکومت میں اس مافیا کے نمائندے موجود ہیں۔ یہ ناول آخر میں یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اس مافیا کو قانون کی گرفت میں کون لائے گا،حرف آخر حفیظ خان نے لاجواب ناول لکھا ہے۔
دوسرا ناول انگریزی زبان میں لکھا گیا ہے ناول نگار کا نام عباس زیدی ہے جو سڈنی آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی ہیں ان کا ناول ۔The infidels of Mecca, کو اردو زبان میں عامر حسینی نے ترجمہ کیا ہے اور بہت مہارت سے کیا ہے اُردو میں اس ناول کا عنوان ،کفار مکہ ، کے نام سے رکھا ہے جو ہمارے پاکستانی ادیب بیرون ملک مقیم ہیں اور انگش میں لکھتے انکے پاس سب یہ موقع تو ہوتا ہے وہ کسی بھی ادارے کے خلاف کچھ بھی لکھ سکتے ہیں انکی طرف کوئی نہیں دیکھ سکتا, یہ سب کچھ اس ناول میں ہے مگر میں مترجم عامر حسینی کی ہمت کی داد دوں گا جنہوں نے پاکستان کے شہر خانیوال میں بیٹھ کر اس ناول کا اردو ترجمہ کیا علاوہ ازیں ناول کے ناشر بھی شاباشی کے مستحق ہیں۔
یہ ناول بےنظیر بھٹو کے قتل پر لکھا گیا ہے بھٹو خاندان سے آپ لاکھ سیاسی اختلاف کر لیں مگر اس خاندان کے تذکرے کے بغیر ہماری سیاسی تاریخ ادھوری ہے ،اور یہ خاندان شکیسپر کے المیہ کرداروں کی طرح آج بھی وطن عزیز کے سیاسی منظر نامے میں موجود ہے اس ناول میں بہت سے صفحات فالتو لکھے گئے جو پڑھنے والوں کو بور بھی کرتے ہیں ،جیسا میں نے سطور بالا میں حفیظ خان کے ناول کرک ناتھ کا ذکر کیا وہ شروع سے آخر تک قاری کو اپنی گرفت میں لیتا ہے اور اس کو مجبور کرتا ہے کہ پورا ناول پڑھو ،عباس زیدی کا ناول اپنے بہاؤ میں اس قدر رواں نہیں ہے تاہم ناول کا اختتام بہت پر اثر ہے اور قارئین کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے،بدقستمی سے ہمارے عکسری دانشور ابھی تک اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام ہیں جو کچھ ماضی میں ہم نےافغان جہاد کے نام پر کیا وہ آج ہمارے گلے کاٹ رہا ہے آج وطن عزیز میں بسنے والے ہندو ،مسیحی،سکھ،احمدی،اور شیعہ ٹارگٹ کلرز کے نرخے میں ہیں،یہ ناول ان نکات پر چند اچھے سوالات اٹھاتا ہے تاہم کچھ جگہ غیر ضروری بحث اور مباحثے اور تصب کا شکار بھی ہو جاتا ہے
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔