بالی ووڈ کا پاکستان مخالف جنون کم ہونے کو نہیں آ رہا

انٹرنیشنل مووی ڈیٹا بیس آئی ایم ڈی بی نے بھارتی فلم سازوں کی تیار کردہ 35 ایسی فلموں کی فہرست تیار کی ہے جو مختلف موضوعات کے ساتھ پاکستان کو نشانہ بناتی ہیں۔ ان میں سے 28 فلمیں 2014 میں نریندر مودی کے بھارت کے وزیر اعظم بننے کے بعد ریلیز ہوئیں۔

بالی ووڈ کا پاکستان مخالف جنون کم ہونے کو نہیں آ رہا

ہندوستان کی تقسیم غلط تھی۔ پاکستان نے بھارت پر چار جنگیں مسلط کیں۔ پاکستان بھارت، بالخصوص کشمیر میں دہشت گرد بھیجتا ہے۔ بھارت بڑا ہے، پاکستان چھوٹا ہے۔ بھارت اچھا ہے، پاکستان برا ہے۔ ہندوستانی سنیما کے یہ موضوعات، جنہیں عام طور پر ہالی ووڈ کی تقلید میں بالی ووڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، 1947 سے برقرار ہیں۔

شاہ رخ خان کی فلم 'جوان' (2023) اور سدھارتھ آنند کی آنے والی فلم 'فائٹر' (25 جنوری 2024) جس میں ہریتک روشن، دیپکا پڈوکون اور انیل کپور نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں، نے پاکستان پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ہندوستانی سنیما کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ ہندوستانی فلم ساز، جو بظاہر اپنے ہالی ووڈ کے بڑے بھائیوں سے متاثر ہیں، جنہوں نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کے مطابق متعدد ایکشن فلمیں تیار کی ہیں، اس رجحان کو مستقل طور پر برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر جیمز بانڈ سیریز، ریمبو سیریز اور مشن امپوسیبل سیریز میں روس، چین، ویتنام، ایران، عراق اور میکسیکو جیسے حریف ممالک کے کرداروں کو ولن کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

ہالی ووڈ سے متاثر ہندوستانی سنیما میں یہ رجحان تقسیم ہند کے بعد سے جاری ہے۔

تاہم اس بیانیے میں پاکستان واحد ہدف نہیں ہے۔ 1962 کی بھارت چین جنگ سے کچھ پہلے دیو آنند کی فلم 'ہم دونوں' 1961 میں ریلیز ہوئی تھی۔ فلم کی کہانی دو ہم شکل بھائیوں کے گرد گھومتی ہے، دونوں فوجی افسران ہیں جو چین اور بھارت کی سرحد پر جنگ شروع ہونے سے پہلے تعینات تھے۔ بڑا بھائی لڑائی میں مارا جاتا ہے اور بیوہ کو خبر پہنچانے کے دوران چھوٹا بھائی غیر یقینی حالات میں گھر جاتا ہے۔ اس کے دو سال بعد 1963 میں دیو آنند نے تقسیم ہند کے موضوع پر 'تیرے گھر کے سامنے' بنائی۔ اس میں مرکزی کردار، ایک آرکیٹیکٹ کو اپنے اور اپنی محبوبہ کے باپ ایک دوسرے کے سامنے دو ایک جیسے گھر تعمیر کرنے کا کام سونپتے ہیں۔ دونوں باپ محبت اور نفرت کا رشتہ رکھتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں لیکن الگ نہیں رہ سکتے۔ یہ علامتی طور پر بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی عکاسی ہے، دو ہمسایہ ممالک ایک ہی ماں، بھارت سے پیدا ہوئے، لیکن ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ہیں۔ ان فلموں میں محبت کو زخم بھرنے کے علاج کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

تاہم 1965 اور 1971 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگوں کے بعد اس معاملے میں نرم نقطہ نظر یکسر بدل گیا۔ راجیش کھنہ کی سپرہٹ فلم 'ارادھنا' (1971) میں ایک شدید رومانس کے پس منظر میں جنگ چھڑ جاتی ہے۔ ہیرو جو کہ بھارتی فضائیہ کا پائلٹ ہے، پاکستان کے خلاف فضائی جنگ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس کے بعد 1980 کی دہائی میں جب کشمیریوں نے بھارت سے آزادی کے لیے استصواب رائے کا مطالبہ کرنا شروع کیا تو ہندوستانی سنیما میں پاکستان مخالف عنصر شدت اختیار کر گیا۔ اس وقت کی ایک قابل ذکر فلم 'بارڈر' (1997) تھی، جس کی ہدایت کاری جے پی دتہ نے کی تھی۔ سنی دیول اور جیکی شروف کی فلم 'بارڈر' میں 1971 کی جنگ کے دوران راجستھان کے محاذ پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان زمینی جنگ کو دکھایا گیا ہے۔ 1998 کی کارگل جنگ کے بعد دتہ نے 2003 میں ایک اور پروجیکٹ 'ایل او سی: کارگل' شروع کیا۔ اس کے بعد کشمیر کی تحریک آزادی اور کارگل جنگ کے موضوع پر متعدد فلمیں تیار کی گئیں، جن میں سے اکثر میں سنی دیول نے مرکزی کردار ادا کیے۔

انٹرنیشنل مووی ڈیٹا بیس (آئی ایم ڈی بی) نے بھارتی فلم سازوں کی تیار کردہ 35 ایسی فلموں کی فہرست تیار کی ہے جو مختلف موضوعات کے ساتھ پاکستان کو نشانہ بناتی ہیں۔ ان میں سے 28 فلمیں 2014 میں نریندر مودی کے بھارت کے وزیر اعظم بننے کے بعد ریلیز ہوئیں۔ انتہا درجے کی قوم پرستی پر مبنی ان فلموں میں بھارتی فوجیوں کو بہادر دکھایا گیا ہے، جس میں بھارت میدان جنگ میں پاکستان کے خلاف فاتح بن کر ابھرتا ہے۔ ان میں بیشتر فلمیں متنازعہ وادی کشمیر میں کاؤنٹر انٹیلی جنس آپریشنز کے گرد گھومتی ہیں، جسے بھارت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے 2019 میں ضم کر لیا تھا۔

2014 میں نیم فوجی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی حمایت یافتہ انتہائی دائیں بازو کی مودی کی بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد بالی ووڈ سنیما نے پاکستان کے بارے میں زیادہ جارحانہ مؤقف اختیار کیا ہے۔ ہندوستانی فلموں میں پاکستان مخالف جذبات کی کامیابی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ عام ہندوستانیوں میں پاکستانیوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے، جسے مودی حکومت نے بڑھاوا دیا ہے۔

'جوان' اور خاص طور پر آنے والی 'فائٹر' جیسی فلمیں 2019 میں پاکستان کے بالاکوٹ میں انڈین حملے کے دوران پاکستان کی جانب سے ہندوستانی فضائیہ کے طیاروں کو مار گرائے جانے کے بعد آئی ہیں۔ اس واقعے کے دوران پاکستان نے بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔ اس واقعہ نے مودی حکومت کو سبکی سے دوچار کیا اور ہندوستانی فضائیہ کی صلاحیت کے بارے میں کئی سوالات کھڑے کر دیے۔ اس کے بعد ورتھمان کو مودی حکومت کی طرف سے ویر چکر (ہندوستانی فوجی ایوارڈ) سے نوازا گیا اور بعد میں پاکستان میں 'بہادر مشن' انجام دینے پر گروپ کیپٹن کے عہدے پر ترقی بھی دی گئی۔ بھارتی حکومت کے اس رویے کی عکاسی ان کے سنیما سے بھی ہوتی ہے۔ اس روایت کی پیروی کرتے ہوئے 'فائٹر' اس واقعے کو ہندوستانی نقطہ نظر سے مثبت انداز میں پیش کرنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے، ہالی ووڈ کی تقلید کرنے کی بالی ووڈ روایت کی پیروی کرتے ہوئے۔ اس فلم کے ٹریلر سے بھی واضح ہے کہ ڈائریکٹر نے ہالی ووڈ کی 'ٹاپ گن: میورک' (2022) کی شکل اور انداز کو اپنایا ہے۔

ہندوستانی ناظرین کے پاکستان مخالف جذبات کی تسکین کے لیے اکثر ان فلموں میں ایک پاکستانی لڑکی کو بھارتی لڑکے سے محبت کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، جیسا کہ 'جوان' میں ہوتا ہے۔ اس سے پہلے ایجنٹ ونود (2012) بھی اس کی ایک مثال ہے۔ ایسا کرنے سے ایک بار پھر بالی ووڈ کے فلم ساز اپنے ہالی ووڈ کے بڑے بھائیوں سے متاثر نظر آتے ہیں، جنہوں نے حریف ممالک کی لڑکیوں کو جیمز بانڈ، ریمبو اور دیگر ایکشن ہیروز کے ساتھ رومانس کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ہالی ووڈ اور بالی ووڈ سنیما میں ہیرو اپنے مشن کی تکمیل پر حریف ممالک کی لڑکیوں کو ٹرافی کے طور پر جیت لیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں قرون وسطیٰ کی روایت میں دشمن کی عورتوں کو مال غنیمت کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

تاہم، یہ حیرت کی بات ہے کیونکہ خواتین کی اس طرح کی تصویر کشی کے خلاف کوئی لبرل یا فیمنسٹ آواز نہیں سنی گئی۔

کسی کو اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ دو بنیادی طور پہ کمرشل سنیما ہیں۔ ان کے پروڈیوسر ایسے مواد تیار کرتے ہیں جو مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق ہوں۔ لہٰذا بالی ووڈ انڈسٹری کے بڑے اداروں کی جانب سے تیار کی جانے والی پاکستان مخالف فلموں کی کثرت سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ موضوع انڈین سنیما کی شیلف پر سب سے زیادہ فروخت ہونے والی چیز ہے۔

سنیما معاشرے کی تشکیل کرتا ہے یا صرف اس کی عکاسی کرتا ہے، اس بحث کے بارے میں، سنیما اسکالرز اور محققین اس کی تصویر کشی کی بنیاد پر اپنے نتائج اخذ کرنے کے لئے آزاد ہیں۔