فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عوام کو ذہنی خلفشار میں ڈال رکھا ہے

افسوس ناک بات ہے کہ 75 سالوں میں پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک میں سے 3 یعنی بھارت، ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ بھارت سے چار جنگیں ہار چکے ہیں۔ افغانستان سے طویل عرصے دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کی صورت حال ہے۔ اب ایران کے ساتھ سرحدی علاقوں میں جنگ کی صورت حال ہے۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عوام کو ذہنی خلفشار میں ڈال رکھا ہے

پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات تشویش ناک حد تک خراب ہو چکے ہیں۔ کچھ روز پہلے ایران کی طرف سے پاکستان میں میزائل حملہ کیا گیا جو بلوچستان کے گاؤں میں کیا گیا جہاں دو بچے اس حملے سے جاں بحق ہوئے۔ اس کے ایک روز بعد ہی پاکستان کی فضائیہ نے ایران کے علاقے میں بمباری کی اور چند دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ پاکستان نے ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔ پاکستان میں موجود ایرانی سفیر جو پہلے ہی تہران میں تھے، ان کو بھی فوری طور پر پاکستان نہ آنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ یہ 75 سالہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ پاکستان نے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے جبکہ ایرانی سفیر کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

اس دوران پاکستانی اور ایرانی وزرائے خارجہ کے درمیان ٹیلی فون پر گفتگو بھی ہوئی ہے تاہم ابھی تک کوئی حتمی بات سامنے نہیں آئی۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تناؤ کی ایک تاریخ تو رہی ہے تاہم اس طرح کی تشویش ناک صورت حال پہلے کبھی نہیں رہی۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان ہوش مندی سے اختلاف کو نہ طے کیا گیا تو جنگ کی صورت حال بھی بن سکتی ہے کیونکہ دونوں ممالک کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی تو ہو چکی ہے۔

ایرانی حکومت کی جانب سے ہمیشہ سے پاکستان سے ہی گلہ رہا ہے کہ پاکستان میں موجود شدت پسند تنظیموں نے شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے۔ یہ گلہ جائز بھی ہے کیونکہ جن شدت پسند تنظیموں نے یہ کام کیا ہے ان کی نشوونما میں ہماری ہئیت مقتدرہ کا نمایاں کردار رہا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں نے بھی ووٹ لینے کے لیے ان شدت پسند تنظیموں سے انتخابی اتحاد کیے ہیں جبکہ پاکستانی حکومت کی ایران سے یہ شکایت رہی ہے کہ بلوچستان میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کو تہران سے آشیرباد ملتی رہی ہے اور را کے جاسوسوں کو بلوچستان ایران سرحد کے ذریعے پاکستان تک رسائی ہوتی ہے۔ دونوں اطراف سے یعنی تہران اور اسلام آباد کی جانب سے کبھی اس معاملے کو حل کرنے کی سنجیدگی سے کوشش نہیں کی گئی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

یہ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ 75 سالوں میں پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک میں سے 3 یعنی بھارت، ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ بھارت سے چار جنگیں ہار چکے ہیں۔ افغانستان سے طویل عرصے دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کی صورت حال ہے۔ اب ایران کے ساتھ سرحدی علاقوں میں جنگ کی صورت حال ہے۔ ایک چین رہ جاتا ہے چونکہ وہ سپر پاور ہے اور پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے اس سے جھگڑا مول لینے کی ہماری اوقات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے ایک چینی صوبے میں جب مسلم شدت پسندوں کو مارا گیا تو اسلام آباد نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔

آج پاکستان اور ایران کے درمیان بداعتمادی کی فضاؤں میں چین اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی تعلقات بحال کرانے میں کامیاب رہا تھا۔ پاکستان کی یہ مجبوری ہے کہ افغانستان میں بسنے والے پشتون ایک دوسرے کے ساتھ ثقافتی طور پر بہت مضبوط جڑیں رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جب پاکستان اور افغانستان کے ساتھ جنگی صورت حال ہوتی ہے تو پاکستان سے افغانستان کی حمایت میں توانا آوازیں اٹھتی ہیں۔ یہی صورت حال ایران کے ساتھ ہے۔ ادھر بھی بلوچ اور ایرانی ثقافت ایک جیسی ہے لہٰذا جنگ کی صورت میں بلوچستان کے اندر سے جنگ کے خلاف آوازیں اٹھ سکتی ہیں۔ پھر پاکستان بھر سے شیعہ مکتبہ فکر کے مسلمانوں کی ایران سے ہمدردی کو بالکل نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس تشویش ناک صورت حال میں پاکستان کے اندر انارکی پھیلنے کے خدشات موجود ہیں۔

پاکستان بدقسمتی سے تضادات کا شکار ملک ہے جہاں ایک طبقہ سنڑل ایشیا کی ریاستوں سے اپنا تعلق جوڑتا ہے، کچھ سعودی عرب کے رومانس میں مبتلا ہیں، کچھ کو افغانستان سے نسبت ہے، کچھ ایرانی نسل ہونے کے دعویدار ہیں، باقی تھوڑے سے اردو بولنے والے ہندوستانی کہلاتے ہیں۔ پنجاب میں کچھ عناصر بھارتی پنجاب سے بھی ایک زبان ایک ثقافت کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اگر ہماری ہئیت مقتدرہ میں عقل اور فہم و فراست ہوتی تو تضادات کے شکار ملک کے لیے ایک متوازن خارجہ پالیسی تشکیل دی جاتی جو اپنے تین اطراف سے وسیع و عریض علاقے کی سرحدی پڑوسی ممالک بھارت، ایران اور افغانستان سے تعلقات بہتر رکھتے اور پاکستانی پنجاب بھارتی پنجاب کی سرحدیں محفوظ ہوتیں۔ سندھ اور راجستھان کے حالات نارمل ہوتے۔ دونوں اطراف کے کشمیری ثقافت کے دھاگے سے بندھے ہوتے۔

بھارت کے ساتھ تجارتی اور ثقافتی مضبوط رشتے ہوتے۔ افغانستان کے ساتھ خبیر پختونخوا اور بلوچستان راہداری سے دہشت گردی کے مسائل نہ ہوتے۔ ایران اور بلوچستان میں بھی اعتماد کی فضا قائم رہتی مگر بدقسمتی سے طاقت کے اصل مراکز نے ایک بے ڈھنگی خارجہ پالیسی تشکیل دی ہے۔ اوپر سے سوشل میڈیا کے ارسطو جو تاریخ اور جغرافیائی علم سے نا بلد ہیں وہ پاکستان کے بھارت، افغانستان یا ایران کے درمیان کوئی بھی ناخوشگوار بات ہو تو ایک طوفان برپا کر دیتے ہیں۔ یہ ہے ہماری ہئیت مقتدرہ کی تربیت اور طاقت کے اصل مراکز کی تربیت جس نے پاکستان کو ایک ذہنی خلفشار میں مبتلا کر رکھا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔