اقتدار میں آ کر چترال کا نقشہ بدل دیں گے؛ سینیٹر طلحہ محمود

عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چترال کے بالائی علاقوں کے لوگ اب بھی پتھر کے زمانے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہاں نہ بجلی ہے، نہ پینے کا صاف پانی اور نہ سڑکیں۔ ماضی میں منتخب نمائندوں کی غفلت کی وجہ سے چترال کو مسلسل نظرانداز کیا گیا۔

اقتدار میں آ کر چترال کا نقشہ بدل دیں گے؛ سینیٹر طلحہ محمود

حکمرانوں اور منتحب نمائندوں کی غفلت کی وجہ سے چترال کے لوگ آج بھی پتھر کے زمانے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یہاں کی سڑکیں سفر کے قابل نہیں ہیں، لوگ بنیادی حقوق سے محروم ہیں، اگر مجھے موقع مل گیا تو چترال کا نقشہ بدل ڈالیں گے۔ ان خیالات کا اظہار این اے ون چترال سے قومی اسمبلی کی نشست پر امیدوار سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کیا جو جمعیت علمائے اسلام کے ٹکٹ پر چترال سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

تحصیل تورکہو کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔ ویر کوپ، شاہ گرام اور دیگر علاقوں کے لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ جے یو آئی کے کارکنوں نے شہر سے باہر آ کر ان کا استقبال کیا اور انہیں قافلے کی شکل میں جلسہ گاہ تک لے گئے۔ اس موقع پر ان کے ساتھ صوبائی نشست حلقہ پی کے ون کے امیدوار حاجی شکیل، سابق امیر شیر کریم شاہ اور دیگر کارکن بھی موجود تھے۔

عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ جب میں نے چترال کے بالائی علاقوں کا سفر کیا تو یوں لگا کہ یہاں کے لوگ اب بھی پتھر کے زمانے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہاں نہ بجلی ہے، نہ پینے کا صاف پانی اور نہ سڑکیں۔ اس سڑک پر چند کلومیٹر کا سفر طے کرنے میں کئی گھنٹے لگتے ہیں۔ چترال ایک سیاحتی علاقہ ہے جہاں قدرت نے بہت کچھ پیدا کیا ہے مگر بد قسمتی سے ماضی میں یہاں سے منتخب نمائندوں کی غفلت کی وجہ سے اسے نظرانداز کیا گیا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ میرا فلاحی ادارہ پہلے سے چترال میں خیر سگالی کے کام کرتا ہے جس میں قدرتی آفات کی صورت میں متاثرین کی مدد کرنا، مریضوں کا مفت علاج کروانا، فری میڈیکل کیمپ لگانا، غریبوں میں مفت راشن اور ضروری سامان تقسیم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس نشست کیلئے دیگر جماعتوں کے امیدواروں نے میرے خلاف الیکشن کمیشن کے دفتر میں شکایت کی ہے کہ میں لوگوں کی مدد کرتا ہوں۔ مگر 8 فروری کے بعد بھی اگر میں یہ امدادی سرگرمیاں جاری رکھوں تو پھر کہاں درخواست دیں گے؟ اگر مجھے خدمت کا موقع ملا اور 8 فروری کو لوگوں نے مجھے بھاری اکثریت سے کامیاب کیا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کا حق نہیں کھاؤں گا۔ بعض لوگ مجھ پر تنقید کرتے ہیں کہ میں نے چترال میں الیکشن سے پہلے اس لیے امدادی سامان تقسیم کیا تھا تاکہ میں یہاں سے الیکشن لڑ کر کامیاب ہو جاؤں تو میرا ادارہ سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا، افغانستان، فلسطین اور دیگر ممالک میں بھی کام کرتا ہے اور مصیبت کے وقت لوگوں کی مالی مدد کرتا ہے، ان علاقوں سے میں کون سا الیکشن لڑ رہا ہوں؟

سینیٹر طلحہ محمود کے مطابق حالیہ انتحابات میں کامیابی کے بعد میرا ارادہ ہے کہ یہاں کی خواتین کیلئے 200 دست کاری مراکز کھولوں۔ اسی طرح یہاں کی سڑکیں، پل اور راستے بناؤں۔ بعض ناقدین لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کر رہے ہیں کہ میں الیکشن میں کامیابی کے بعد غائب ہو جاؤں گا۔ مگر یہاں سے نصرت بھٹو بھی تو کامیاب ہوئی تھی۔ اب میں چترال سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ میں نے جغور میں اپنا ذاتی گھر خرید لیا ہے اور یہاں اپنے ویلفیئر ٹرسٹ کا دفتر بھی کھول لیا ہے۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ آپ لوگ اپنے حقوق کیلئے صحیح اور ایماندار نمائندہ منتخب کریں تا کہ وہ صرف اسمبلی میں بیٹھ کر تنخواہ نہ لے اور ڈیسک بجانے کے علاوہ اور کوئی کام نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار میں آ کر چترال کا نقشہ بدل ڈالیں گے۔ جب میں وزیر حج اور مذہبی امور تھا تو میں نے اربوں روپے حکومتی خزانے سے نکال کر حاجیوں کو واپس کیے جو ان سے زیادہ لیے گئے تھے۔

اس موقع پر سابق امیر شیر کریم شاہ اور دیگر رہنماؤں نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے ماضی کے منتخب نمائندوں پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ شہزادہ افتخار الدین، مولانا عبدالاکبر چترالی دو
مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے مگر انہوں نے چترال کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ انہوں نے عبد الاکبر چترالی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے پانچ سال اسمبلی میں گزارے، اپنی تنخواہ تو لیتا رہا مگر ووٹ لینے کے بعد لوگوں کو اپنا منہ بھی نہیں دکھایا اور اسمبلی ٹوٹنے کے بعد برائے نام افتتاح کرتے ہوئے اپنے نام کے بورڈ لگوائے مگر کام شروع نہ ہونے پر عوام نے ان بورڈوں کو بھی اکھاڑ کر پھینک دیا۔ تاہم جلسہ میں سابق ایم پی اے ہدایت الرحمان کو آنے نہیں دیا گیا کیونکہ پانچ سال بطور رکن صوبائی اسمبلی اس کی کارکردگی بھی نہایت مایوس کن تھی اس لیے اسے جماعت کے اکابرین نے یہاں آنے سے منع کیا۔

انتخابی مہم کا آخری جلسہ شاہ گرام میں منعقد ہوا جہاں سینیٹر طلحہ محمود نے برملا کہا کہ اگر غریبوں کی مدد کرنا، خواتین کو سلائی کڑھائی والی مشین دینا، مریضوں کا مفت علاج کرانا، یتیموں کو مفت تعلیم دینا وغیرہ جرم ہیں تو میں یہ جرم کرتا رہوں گا۔ اگر کسی میں دم ہے اور مجھے اس کام سے روک سکتا ہے تو روک لے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دیگر شہروں میں اگر عوام کو تمام بنیادی سہولیات میسر ہیں تو یہاں کیوں نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ لاہور کو بھی چترال کی طرح پسماندہ ہونا چاہیے بلکہ چترال کو بھی لاہور کی طرح ترقی یافتہ ہونا چاہیے۔ جلسہ میں لوگوں نے ان کے حق میں نعرے بھی لگائے اور یقین دہانی کروائی کہ وہ انہیں ضرور کامیاب کریں گے تا کہ چترال میں بھی ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جا سکے۔

جلسہ استاد الحدیث فتح الباری کے دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔