Get Alerts

مغرب اور ایشیا میں پاپولزم کا عروج؛ کیا جمہوریت ہار رہی ہے؟

مغربی جمہوریتوں میں، پاپولزم مضبوط پارٹیوں اور ووٹرز کے درمیان پھوٹ پڑنے کے نتیجے میں متبادل کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔ تاہم زیادہ تر ایشیائی جمہوریتوں میں پاپولزم اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مضبوط سیاسی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتی ہیں (بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جھگڑوں کی وجہ سے) اور نئے طاقتور گروہ ابھرنے لگتے ہیں۔

مغرب اور ایشیا میں پاپولزم کا عروج؛ کیا جمہوریت ہار رہی ہے؟

پاپولزم کا دایاں اور بایاں رخ

' پاپولزم' کا لفظ پاکستان میں مرکزی دھارے کی سیاسی گفتگو میں بہت تاخیر سے داخل ہوا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات جیت کر بہت سے سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا اور برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنے کی مہم چلانے والے دائیں بازو کے گروپس نے جب جون 2016 کے ریفرنڈم میں ایک کمزور (لیکن حیران کن) اکثریت حاصل کر لی تو یہ لفظ امریکہ اور یورپ میں گفتگو، کتابوں اور مضامین میں کثرت سے استعمال ہونے لگا۔

سیاست کی وہ صورتیں جن کے بارے میں کبھی خیال کیا جاتا تھا کہ وہ معاشرے کے حاشیے پر موجود ہیں، انہوں نے مرکزی دھارے پر ہلہ بول دیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ مرکزی دھارے پر یہ حملہ روایتی جمہوری طریقوں کے ذریعے کیا گیا ہے۔ اس نے امریکہ اور برطانیہ کے ماہرین سیاست کو مرکز نگاہ بنا دیا کیونکہ وہ ٹرمپ کی فتح اور برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں ریفرنڈم کو قبل از وقت بھانپنے میں ناکام ہوئے تھے۔ بہت سے سیاسی سائنس دانوں اور مبصرین کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ انہوں نے بعض علامات کو نظر انداز کیا یا انہیں کمزور سمجھا جو عوام کے بڑے حصے میں آنے والے غیر معمولی موڈ سوئنگ کا اشارہ دے رہی تھیں۔ اس پیش رفت کے بعد اس رجحان کا زیادہ سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ شروع ہوا۔

مذکورہ دونوں واقعات کو 'جھٹکوں' کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ یہ دو ممتاز جمہوریتوں میں محض روایتی دائیں بازو کی جانب سے انتخابات اور ریفرنڈم جیتنے تک محدود نہیں تھے۔ یہ جھٹکے ایک نظرانداز شدہ اور یہاں تک کہ تضحیک کا نشانہ بنائے گئے اس 'انتہائی دائیں بازو' سے متعلق تھے جو مغربی جمہوریت پر حملہ آور ہو چکا تھا۔ اور وہ بھی ووٹ کی طاقت کے ذریعے اور ایسے ذرائع کی مدد سے جو مکمل طور پر آئینی اور جائز تھے۔ 2016 میں امریکہ میں ٹرمپ کی فتح کے بارے میں ہونے والی اولین سٹڈیز نے اسے پاپولزم کی واپسی قرار دیا یا اسے سیاست کا پرفارمنس پر مبنی اور 'جذباتی' انداز قرار دیا جو 19ویں صدی سے امریکہ میں وارد ہو چکا تھا مگر کبھی بھی اتنا طاقتور نہیں ہو سکا تھا کہ وائیٹ ہاؤس تک پہنچ پاتا۔ برطانیہ میں ریفرنڈم کے 'حیران کن نتائج' کی تحقیقات کرنے والے ماہرین سیاسیات نے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ جیت اس بات کی علامت ہے کہ پاپولسٹ سیاست مقبول ہو رہی ہے۔

ان نتائج سے اس حقیقت کا پتہ چلا کہ پاپولزم اندازوں سے کہیں زیادہ وسیع رجحان تھا جب متعدد یورپی ملکوں میں انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان اور سیاسی جماعتیں یا تو (جمہوری طریقوں سے) اقتدار میں آنا شروع ہوئے یا ان کے ووٹ بینک میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ مزید مطالعے سے معلوم ہوا کہ پاپولزم جنوبی امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں بھی اسی طرح مقبول ہو رہی ہے اور یہ بھی کہ پاپولزم دائیں بازو سے بھی ابھر رہی ہے اور بائیں بازو سے بھی۔ مگر پاپولزم اصل میں ہے کیا؟

اس سوال کے سب سے زیادہ غالب جواب ان سماجی اور سیاسی سائنس دانوں نے دیے جو 2016 کے بعد پاپولزم کے موضوع بحث بننے سے بھی بہت پہلے سے اس کا مطالعہ کر رہے تھے۔ کاس موڈے ایسے ہی ایک دانشور ہیں۔ انہوں نے کئی سالوں میں پاپولزم کے معنی کو مسلسل بہتر بنایا ہے۔ موڈے نے پاپولزم کی متعدد تعریفوں پر گہری تنقید کی ہے تا کہ ایسی خوبیوں کا ایک مجموعہ تشکیل دیا جا سکے جو پاپولزم کی بہتر تعریف، خاص طور پر اس کی موجودہ شکل کی تعریف کو ممکن بنا سکیں۔ موڈے کے نزدیک پاپولزم ایک 'کمزور مرکزیت والا نظریہ' ہے جو معاشرے کو حتمی طور پر دو یکساں اور مخالف گروہوں میں تقسیم سمجھتا ہے؛ 'بے قصور شہری' اور 'کرپٹ اشرافیہ'۔

اس سے موڈے کی مراد یہ ہے کہ پاپولزم 'مضبوط نظریات' کے برعکس ہے جو مکمل مرکز رکھتے ہیں جیسے سوشلزم، مارکسزم، فاشزم، لبرل ازم، وغیرہ۔ اس لیے پاپولسٹ کسی مکمل طور پر تشکیل شدہ نظریے کو ماننے کے پابند نہیں ہوتے۔ درحقیقت، پاپولزم کا 'کمزور مرکز' اکثر دوسرے نظریات سے چیزیں مستعار لے کر خود کو مضبوط کرتا ہے۔ مستعار لی گئی یہ چیزیں باہم متضاد بھی ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر یورپ اور امریکہ میں موجود جدید دور کے پاپولسٹ روایتی دائیں بازو کی جماعتوں میں موجود سماجی قدامت پسندی کے رجحان کو خوشی خوشی اپناتے ہیں، لیکن ان جماعتوں کے برعکس، پاپولسٹ بڑی حد تک معاشی معاملات میں ریاست کے کردار کو کم کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کم از کم اس سلسلے میں مغرب میں موجود پاپولسٹ بالکل قدیم سوشل ڈیموکریٹس کے جیسے ہیں۔

مغرب اور 'گلوبل ساؤتھ' میں پائے جانے والے جدید دور کے پاپولزم کے درمیان بہت سی مماثلتیں ہیں، تاہم دونوں کے بیچ کچھ واضح فرق بھی ہیں۔ آمرانہ حکومتیں اور آمروں کی پاپولسٹ چالیں اور پالیسیاں ہمارے مطالعہ کا موضوع نہیں ہیں۔ پاپولزم آج جس طرح ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں قسم کی جمہوریتوں میں 'آمرانہ سوچ رکھنے والے' سیاست دانوں کی انتخابی کامیابی کو مہمیز دی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان جمہوریتوں کے انتخابات میں لاکھوں کی تعداد میں عوام نے پاپولسٹ رہنماؤں کو ووٹ دیے ہیں تو پھر پاپولزم اتنا برا لفظ کیسے بن گیا ہے؟ کیا اس لفظ کو ہمیشہ سے ایسا ہی سمجھا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بڑے پیمانے پہ اسے برا ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔

اگر اسے 'برا' نہیں بھی سمجھا گیا تب بھی اسے ایک خرابی ضرور سمجھا گیا ہے جو ایسی جمہوریتوں میں رستہ بناتا ہے جن میں خامیاں موجود ہوتی ہیں۔ اس تناظر میں اس سے بھی زیادہ تشویش ناک نظریہ یہ تھا کہ پاپولزم ایک شخصیت کو مرکزی حیثیت دے کر اس کے گرد ڈکٹیٹرشپ پروان چڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ وہ مشاہدات تھے جو  1967 میں لندن سکول آف اکنامکس میں منعقدہ ایک کانفرنس کے دوران ماہرینِ عمرانیات اور سیاسیات نے پیش کیے تھے۔ حال ہی میں لندن سکول آف اکنامکس کی جانب سے شائع ہونے والی کانفرنس کی ایک 'لفظی رپورٹ' پڑھنے کے بعد میں نے نتیجہ اخذ کیا کہ پاپولزم کی تعریف مرتب کرنے کی کوشش میں کانفرنس میں شریک سکالرز دونوں عالمی جنگوں کے بیچ کے سالوں میں جرمنی، اٹلی اور سپین جیسے ممالک میں رونما ہونے والے واقعات سے بہت زیادہ متاثر نظر آئے تھے۔

کانفرنس میں شریک بیش تر سکالرز قائل تھے کہ پاپولزم کو نیم فاشزم کی ایک شکل کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن کانفرنس کے آخر تک ان سکالرز میں سے کسی کو بھی حتمی طور پر معلوم نہیں تھا کہ پاپولزم کو کیا کہا جائے۔ بہرحال، اس کانفرنس کے بعد اس رجحان کو ' پاپولزم سٹڈیز' بننے میں طویل سفر طے کرنا پڑا۔ ابتدا میں اس پر آہستہ آہستہ کام ہوا لیکن 2000 کی دہائی کے اوائل سے اس میں تیزی آنا شروع ہوئی اور 2016 کے بعد پوری شد و مد سے اس کا مطالعہ شروع ہو گیا۔ ایسے بھی کئی ماہرین سماجیات اور سیاسی سائنس دان رہے ہیں جنہوں نے پاپولزم کو 'شیطانیت' قرار دینے کو اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ پاپولزم سے ایسی سماجی تحریکیں جنم لیتی ہیں جو جمہوریتوں کو مزید متحرک بنا سکتی ہیں، لوگوں کی شرکت کو بڑھا سکتی ہیں اور انتہائی اہم معاشی اور سماجی اصلاحات کا آغاز کر سکتی ہیں۔

تاہم، پاپولزم کا مطالعہ کرنے والے سکالرز کی اکثریت پاپولسٹ عروج سے پیدا ہونے والی کسی بہتری سے قائل ہوتی نظر نہیں آتی۔ تجرباتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ زیادہ تر کیسز میں پاپولزم جمہوری اداروں اور جمہوری عمل کے لیے نقصان دہ نتائج لے کر آیا ہے۔

مغرب میں موجود بیش تر ماہرین عمرانیات اور سماجیات اس بات پر متفق ہیں کہ درج ذیل خصوصیات پاپولزم کی پہچان ہیں:

* یہ ایک کمزور مرکز والا نظریہ ہے جو 'مکمل' نظریات سے چیزیں مستعار لیتا ہے، ایسی سیاست کرنے کے لیے جو بڑے پیمانے پر جذبات کو متاثر کرتی ہے۔

* یہ دائیں بازو والے گروہوں میں بھی پیدا ہو سکتا ہے اور بائیں بازو والوں میں بھی۔

* یہ کوئی مربوط نظریہ نہیں ہے بلکہ ایک خاص انداز، گفتگو یا زبان پر استوار ہوتا ہے۔

* یہ 'اشرافیہ مخالف' رجحان ہے اور عام لوگوں کو اہمیت دیتا ہے۔

* اس میں بڑے بڑے پالیسی بیانات دیے جاتے ہیں مگر بعد میں انہیں بھلا دیا جاتا ہے۔

* اس کا ڈھانچہ ناقص انداز میں کھڑا کیا جاتا ہے اور اس میں نظم و ضبط نہیں ہوتا۔ یہ جماعت سے زیادہ ایک تحریک ہوتی ہے۔

* اسے اکثر مخصوص سیاسی انداز، گفتگو، فریم یا حکمت عملی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو مبینہ طور پر بدعنوان اور سازشی اشرافیہ اور جن اداروں پر وہ قابض ہیں ان کے خلاف 'لوگوں' کو متحرک کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔

* اپنی موجودہ شکل میں پاپولزم جدید لبرل معاشیات کی ناکامیوں کا نتیجہ ہے جس نے ریاست یا حکومت کے معاشی افعال کو کم کر دیا اور اس کے برعکس ان افعال کو بڑے بڑے کاروباروں اور ملٹی نیشنل اداروں کے حوالے کر دیا اور پھر 2008 کی عالمی کساد بازاری کے دوران انہیں کھلی چھوٹ دے دی۔

لہٰذا، پاپولزم کوئی نظریہ نہیں ہے، یہ ایک انداز ہے۔ اس کے پاس حقیقت میں کوئی مربوط نظریہ نہیں ہے۔ اس کی تشکیل زیادہ تر جذباتی بیان بازی اور سینہ ٹھوکنے جیسے طرز عمل سے ہوتی ہے۔ یہ دائیں اور بائیں دونوں طرح کے نظریات رکھنے والوں میں موجود ہوتا ہے۔ بائیں بازو کے پاپولزم کو اکثر 'سوشل پاپولزم' کہا جاتا ہے۔ یہ بائیں بازو کی قائم کردہ لبرل اور/یا سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کے بارے میں خیال کرتا ہیں کہ وہ سمجھوتہ کر چکی ہیں اسی لیے سرمایہ دارانہ تسلط کو اب چیلنج نہیں کرتیں۔ دائیں بازو کے پاپولزم کو 'نیشنل پاپولزم' کہا جاتا ہے۔ یہ پاپولزم روایتی قدامت پسند پارٹیوں کو اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مسترد کرتا ہے کہ وہ 'خاموش اکثریت' سے لاتعلق ہو چکی ہیں اور اخلاقی معاملات پر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرتیں۔

مغرب میں سوشل پاپولزم زیادہ تر مابعد جدیدیت کے بائیں بازو کے اسباب کی توسیع ہے؛ سماجی انصاف، اقلیتی حقوق، صنفی یا نسلی مساوات وغیرہ جیسے اسباب۔ لیکن بائیں بازو کے پاپولزم کی یہ شکل اپنی اپیل کو ان 'محفوظ مقامات' سے آگے بڑھانے میں ناکام رہی ہے جو اس نے خود تخلیق کیے تھے۔ 1970 کی دہائی سے پہلے بائیں بازو کی سیاست زیادہ تر طبقاتی کشمکش پر مبنی ہوتی تھی۔ سرد جنگ کے بعد طبقاتی کشمکش کی سیاست کی جگہ 'اصلاح شدہ' سرمایہ دارانہ نظام نے لے لی۔ اس کے باوجود مغرب میں بائیں بازو کے پاپولسٹ طبقاتی کشمکش کی سیاست کو زندہ کرنے کے لیے نہیں ابھرے، بلکہ سماجی تنازعات کی سیاست کو زندہ کرنے کے لیے ابھرے ہیں۔

نیشنل پاپولزم امیگریشن مخالف اور نیشنل ازم کی حامی ہے۔ قومیت کا تعلق ایک خاص طرز کی قوم پرستی سے ہے جس کے مطابق معاشرے کا صرف ایک خاص طبقہ ہی ملک کا شہری ہونے کے قابل ہے۔ نیشنل پاپولزم سوشل پاپولسٹوں کے بارے میں بھی انتہائی مشکوک ہے اور اکثر انہیں 'نیو مارکسسٹ' قرار دیتی ہے۔ حالانکہ سوشل پاپولزم کا مارکسزم کے ساتھ محض واجبی سا تعلق ہے۔

نیشنل پاپولزم سیاست میں مذہب کے کردار کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ لیکن کم از کم یورپ میں، یہ کردار فطرت میں تھیوکریٹک نہیں ہے۔ یورپ کے مسیحی ورثے سے اس کا زیادہ تعلق ہے۔ دائیں اور بائیں دونوں طبقات سے تعلق رکھنے والے پاپولسٹ خود کو 'اشرافیہ مخالف' اور 'عوام دوست' کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اپنے سیاسی پروگرام کے طور پر دینے کے لیے پاپولزم کے پاس کچھ نہیں ہے۔ یہ دوسرے زیادہ ٹھوس سیاسی نظریات سے چیزیں مستعار لیتا ہے۔ اکثر بائیں اور دائیں بازو کے دونوں پاپولزم ایک ہی جگہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا انداز ہے جس میں ایک رہنما ڈرامائی حتیٰ کہ متضاد بیان بازی کا استعمال کرتے ہوئے خود کو بے حس اور ظالم اشرافیہ کے خلاف عام لوگوں کی آواز کے طور پر پیش کرتا ہے۔

وہ ایک ایسا بیانیہ بنانے کے لیے آگے پیچھے، دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کلٹی مارتا رہتا/ رہتی ہے جو اس کے حامیوں کو پُرجوش کیے رکھے۔ پاکستان میں مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو (77-1971) اور عمران خان (22-2018) اکثر یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔ اس آگے پیچھے والے بیانیے سے سامعین میں جو جوش و خروش پیدا ہوتا ہے، پاپولسٹ لیڈر اس توانائی کو اپنے اندر جذب کرتا ہے اور یہ توانائی اس کی انا پرستی کو تقویت بخشتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جب پاپولسٹ لیڈر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ 'عوام کے ساتھ شامل ہو چکا ہے'۔ ذوالفقار علی بھٹو اکثر یہی دعویٰ کرتے تھے۔

پاپولزم جمہوریت ہی سے پھوٹا ہے

ٹرمپ کے دور صدارت کے پہلے سال کے دوران، اور اس سے پہلے بعض سیاسی سائنس دانوں نے پورا زور پاپولزم کو ایک اجنبی تصور کے طور پر بیان کرنے پر لگا دیا جو جمہوریت میں مداخل ہو چکا تھا اور اسے اندر سے کھا رہا تھا۔ لیکن جوں جوں پاپولزم کی انتخابی اپیل بڑھتی چلی گئی تو یہ دعویٰ کہ پاپولزم جمہوریت سے باہر کی کوئی چیز ہے، کمزور ہونا شروع ہو گیا۔ پاپولزم کی مقبولیت کا مطالعہ کرنے والے کچھ سکالرز اور ماہرین تعلیم کی توجہ برطانوی سیاسی نظریہ ساز مارگریٹ کینووان اور ماہر عمرانیات مائیکل مان کی تحریروں کی جانب مبذول ہوئی۔ 1999 میں کینووان نے لکھا تھا کہ جمہوریت کے دو رخ ہوتے ہیں؛ ایک مثالی اور دوسرا عملی۔ پاپولزم جمہوریت کے ان دونوں رخوں کے مابین موجود ٹینشن کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

2005 میں مائیکل مان کی کتاب 'دی ڈارک سائیڈ آف ڈیموکریسی' شائع ہوئی، جس میں اس نے دلیل دی کہ جمہوریت (جب اکثریتی گروہ کے نظام میں ڈھلنے لگتی ہے) بعض اوقات ایسے اقدامات کرتی ہے جو عام طور پر آمرانہ حکومتیں سرانجام دیتی ہیں۔ مائیکل مان نے لکھا، 'جمہوریت میں یہ امکان موجود ہے کہ اکثریت اقلیتوں پر ظلم کر سکتی ہے'۔ اس ضمن میں دو مثالیں ذہن میں آتی ہیں؛ پاکستان میں 1974 میں منتخب پارلیمنٹ کے ایک اقدام کے ذریعے ایک قیاس شدہ 'بدعتی' کمیونٹی کو دائرہ اسلام سے بے دخل کرنا، اور بھارت میں ایک مقبول اور منتخب ہندو قوم پرست حکومت کے ذریعے ہندوستان کے مسلمان شہریوں کو برا بنا کر پیش کرنا۔ 2010 کی دہائی کے دوران مختلف ممالک میں منتخب ہونے والے نیشنل پاپولسٹ رہنماؤں کی تمام تر کوششیں اقلیتی گروہوں کو واضح طور پر پسماندہ رکھ کر ایک ہم آہنگ اکثریتی قوم بنانے پر مرکوز رہیں۔

کینووان کا ماننا ہے کہ پاپولزم جمہوریت کے باہر موجود کوئی چیز نہیں - یہ جمہوریت کے اندر سے پھوٹتی ہے۔ اپنی 2013 میں شائع ہونے والی کتاب Political Religion Beyond Totalitarianism میں مورخین J Agusteijin، P Dassen اور M Maratje دلیل دیتے ہیں کہ سیاسی سکالرز 'جمہوریت کے دو رخے پن' کو سمجھنے میں سست واقع ہوئے کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جمہوریت کو اس مطلق العنانیت کے مقابلے میں مکمل طور پر مثالی نظام بنا کر پیش کیا گیا تھا جو روس میں سٹالن ازم، جرمنی میں نازی ازم، اٹلی میں فاشزم اور بعد میں چین میں (ماؤ ازم) کے طور پر ابھری تھی۔

مغرب کے سیاسی سائنس دانوں نے ان مطلق العنان حکومتوں کو 'سیاسی مذاہب' کے طور پر دیکھا جو عام لوگوں پر مسلط کیے گئے تھے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں جمہوریت کو ایک عقلی، مدبر اور سیکولر خیال کے طور پر پیش کیا گیا۔ تاہم، Aigustijin، Dassen اور Maartje کے مطابق اگر مذکورہ ممالک میں نیشنل ازم اور کمیونزم جیسے سیکولر نظریات کو سیاسی مذاہب بنانے کے لیے انہیں 'مقدس' رنگ دیا گیا، وہیں جمہوریت کو بھی الوہی حیثیت دی گئی اور اسے بھی مقدس بنا کر پیش کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موجود بعض پکے جمہوریت پسند جب فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے مابین پیدا ہونے والی حالیہ کشمکش کی وجہ سے ملک میں مارشل لاء لگنے کا امکان ظاہر کرتے ہیں تو اکثر اس سے پہلے 'خدانخواستہ' بولتے ہیں، گویا جمہوریت ایک مقدس نظام ہے۔ جمہوریت بذات خود مقدس نہیں ہے، لیکن اسے یقینی طور پر مقدس بنایا گیا ہے۔

2010 کی دہائی میں بھارت میں ہندو قوم پرست برسراقتدار آئے اور اسرائیل میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بنیاد پرست صیہونی منتخب ہوئے۔ اسی عرصے کے دوران مختلف یورپی ممالک اور امریکہ میں بھی نیشنل پاپولسٹ لیڈر اقتدار میں آئے۔ ان پاپولسٹ رہنماؤں نے 'انتخابی آمریت' یا 'غیر لبرل جمہوریت' قائم کرنے کے لیے جمہوریت پر باہر سے حملہ نہیں کیا۔ وہ جمہوریت کے اس رخ کا لازمی حصہ تھے جسے نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ Aigustiejin، Dassen اور Maartje ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ نازیوں کو بھی جرمنی کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے منتخب کیا تھا اور ان کے ساتھ کھڑے تھے۔

اگرچہ بعد میں اس کی وضاحت عارضی پاگل پن کے ایک عمل کے طور پر کی گئی - عین اسی طرح جس طرح دیوتا موافق پاپولسٹ رہنماؤں کی انتخابی فتوحات کو آج دیکھا جا رہا ہے - یہ 'پاگل پن' جمہوریت کے باہر سے نہیں آیا بلکہ اس کے اندر سے پھوٹا ہے۔

اب کیا کیا جا سکتا ہے؟

دنیا ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے جس چیز کا مشاہدہ کر رہی ہے وہ جمہوریت کے مثالی تصور کو پہنچنے والا نقصان ہے۔ یہ جمہوریت ہی کا دوسرا مگر کم خوشگوار پہلو ہے جو نمایاں ہو کر سامنے آ چکا ہے۔ سیاسی سکالرز اب اسی نئی صورت حال سے جوجھ رہے ہیں۔

چنانچہ، اب کیا کیا جا سکتا ہے؟ جہاں مضبوط جمہوریتیں قائم ہیں وہاں گفتگو اس جانب  مڑ رہی ہے کہ کچھ ایسے نئے طریقے متعارف کروانے کی ضرورت ہے جو جمہوریت کے 'تاریک رخ' کو قابو میں کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

یہ تضاد پر مبنی صورت حال ہے کیونکہ اس میں جمہوریت کے لبرل رخ کو محفوظ بنانے کے لیے بعض غیر لبرل طریقوں کا استعمال بھی شامل ہے۔ لہٰذا، کیا غیر لبرل طاقتوں کے مرکزی دھارے کی سیاست میں در آنے کے امکانات کو روکنے کے لیے آزادی اظہار، سب کی شمولیت اور دیگر ایسی جمہوری اقدار کو سختی سے منظم کیا جانا چاہیے؟ کیا ایسے اقدام لبرل جمہوریت کے پورے تصور کی ضد نہیں ہوں گے؟

Cas Mudde کے مطابق پاپولسٹ یا غیر لبرل قوتیں جو جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار میں آتی ہیں، وہ جمہوریت میں پائے جانے والے تضاد کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ بلاشبہ لبرل جمہوریت مختلف شہری حقوق کے تحفظ کا دم بھرتی ہے، لیکن یہ اکثریت کی حکمرانی کی بھی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ اکثریت ان حقوق کو ختم کرنے کے درپے ہو جاتی ہے جو حقوق جمہوریت فراہم کرتی ہے۔

موجودہ وقت تقاضا کر رہا ہے کہ جمہوریت کا گہرا، چست اور کم مثالی تجزیہ کیا جائے۔ اسے ایسے طریقوں کے ذریعے منظم کرنے کی ضرورت ہے جو خالص پسندوں اور مثالیت پسندوں کو ناگوار گزر سکتے ہیں مگر یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا جمہوریت لگ بھگ پچھلی ایک دہائی سے خود کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہی؟ جمہوریت کو بدستور مثالی نظام مان کر اس پر نئے زاویوں سے تنقید نہ کرنا دانش مندانہ رویہ نہیں ہے۔

سیاسی سکالرز اور مرکزی دھارے کی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ جمہوریت کے عقلی اور سنجیدہ پہلوؤں کو پھر سے زندہ کریں۔ یہ پہلو جمہوریت کے ان پہلوؤں کے نیچے کہیں دب کے رہ گئے ہیں جو مسائل سے پُر ہیں اور پاپولزم کو راہ دیتے ہیں۔ بہت سے مواقع پر جمہوریت کے اس پہلو کے باعث سنگین سیاسی اور سماجی ٹوٹ پھوٹ بھی پیدا ہوئی ہے۔ بعض اوقات جمہوریت کی سب سے بڑی دشمن خود جمہوریت ہی ہوتی ہے۔ جیسا کہ 1930 کی دہائی کے دوران جرمنی میں جمہوریت نے خود کو نقصان پہنچایا یا جیسے 2010 کی دہائی سے مختلف ملکوں میں جس طرح نقصان پہنچا رہی ہے، اسے خود کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے عقلی بنیادوں پر مبنی نئے طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔

پاپولزم ایشیا میں

پاپولزم یا 'نیو پاپولزم' کا عروج ایک عالمی مظہر رہا ہے۔ بیش تر ہم عصر سیاسی سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ جسے ہم آج پاپولزم کے طور پر جانتے ہیں اگرچہ اس نے 1990 کی دہائی کے وسط میں سر اٹھانا شروع کیا تھا، لیکن حقیقی طور پر 2000 کی دہائی کے اواخر میں یہ عالمی رجحان بننا شروع ہوا۔ بعض سکالرز کے نزدیک یہ اب بھی عروج کی جانب گامزن ہے۔ بعض دوسرے سکالرز کے نزدیک اب یہ زوال پذیر ہے، لیکن زوال کی رفتار خاصی سست ہے۔ پاپولزم پر زیادہ تر گفتگو امریکہ اور یورپ میں کی جا رہی ہے۔ لہٰذا، بہت سے ایشیائی سکالرز نے اپنے یورپی اور امریکی ہم عصروں کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ پاپولزم کا مطالعہ محض مغرب میں اس کے عروج کے تناظر میں کر رہے ہیں۔ ایسے ایشیائی سکالرز جو پاپولزم کو مقامی نکتہ نظر سے دیکھ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایشیائی ممالک میں پروان چڑھنے والے پاپولزم میں مغرب میں ابھرنے والے پاپولزم کی بہت سی خصوصیات موجود ہیں تاہم دونوں کے مابین اہم فرق بھی ہیں۔

اگرچہ بیش تر سکالرز اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ دور کا پاپولزم اپنی فطرت میں زیادہ تر 'دائیں بازو' کا پاپولزم ہے۔ اس ضمن میں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ تر پاپولسٹ لیڈر 'اشرافیہ' کے انہی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں جن پر وہ حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسے معاشرے میں طبقاتی تناؤ کی علامت ہو سکتی ہے جس میں دولت مند اشرافیہ کے اندر واضح تقسیم پیدا ہو چکی ہے۔

پاپولزم کے بارے میں میرا اپنا مطالعہ متواتر یہ ظاہر کرتا ہے کہ جہاں مغرب میں پاپولزم کو زیادہ تر (لیکن مکمل طور پر نہیں) محنت کش اور دیہی طبقات کی حمایت مل رہی ہے، ایشیا میں اسے شہری اور نیم شہری مڈل کلاس ​​طبقے میں زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ مغرب اور ایشیا میں نیو لبرل معاشیات کے بارے میں مختلف نکتہ نظر پایا جاتا ہے۔

1970 کے بعد کی مغربی حکومتوں کی 'نیو لبرل' پالیسیاں، جنہوں نے ریاست کے معاشی کردار کو کم کر دیا، انہوں نے محنت کش طبقے اور متوسط ​​آمدنی والے گروہوں کے بعض حصوں کو بیزار کر دیا۔ یہ بیزاری کارپوریٹ اشرافیہ کے خلاف غصے میں ڈھل گئی۔ اشرافیہ نے نیو لبرل پالیسیوں سے اس وقت بھرپور منافع کمایا جب مغرب میں بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے گورننس کے کئی معاملات آؤٹ سورس کر کے ان کے سپرد کر دیے۔

اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غصے کو اپنے فائدے میں استعمال کرنے کے لیے پاپولسٹ آ گئے۔ اپنی آواز سنانے اور نظروں میں آنے کے لیے وہ بعض ایسے 'سیاسی لحاظ سے غلط' تصورات کو مںظرعام پر لے آئے جو 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے لے کر 1991 میں سرد جنگ کے خاتمے تک مغرب میں دب کر رہ گئے تھے۔ یوں جو کچھ منظرعام پر آیا اس میں الٹرا نیشنل ازم، زینو فوبیا، نسل پرستی، سیاست میں مذہب کی مداخلت، اور دیگر تصورات شامل تھے۔ لہٰذا، مثال کے طور پر کثیر ثقافتی اور عالمگیریت جیسے نظریات کا مقابلے کرنے کے لیے پاپولسٹ لوگوں نے مغرب میں قوم پرستی اور مقامیت کی حوصلہ افزائی کی اور امیگریشن مخالف سخت پالیسیوں کے نفاذ کا مطالبہ شروع کر دیا۔

اس میں حیران کن بات یہ ہے کہ مغرب میں روایتی دائیں بازو کی سوچ کے برعکس، جو معاشی معاملات میں ریاست کے کردار کو کم کرنے کی حامی رہی تھی، دائیں بازو کی پاپولزم درحقیقت معاشی معاملات میں ریاست کا کردار بڑھانے کے درپے ہے۔ یہ اس یقین کی علامت ہے کہ مغرب میں محنت کش طبقے کی ہمدردیاں بائیں بازو سے پاپولسٹ دائیں بازو کی طرف منتقل ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

دوسری جانب، ایشیا میں آباد متوسط طبقے نے نیو لبرل ازم کو خوش دلی سے قبول کر لیا جس نے انہیں ریاستی ضابطوں سے آزاد ہونے کا احساس دیا اور یوں انہیں اپنی شرائط پر دولت اور سماجی رتبہ بنانے کا موقع ملا۔ ایشیا کے پاپولزم کو تشکیل دینے میں مذہبی نیشنل ازم، زینو فوبیا، شخصیت کی مقبولیت اور بڑھتی آمرانہ سوچ کا زیادہ عمل دخل نہیں ہے۔ چینی ماہر سیاسیات وانگ شیرو کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد کئی دہائیوں تک یہ خصوصیات بیش تر یورپی ممالک اور امریکہ میں مرکزی دھارے کی سیاست کا حصہ نہیں تھیں۔

یہ خصوصیات سرد جنگ کے خاتمے کے بعد منظرعام پر آنے لگیں اور اس کے بعد 2010 کی دہائی کے دوران زیادہ طاقت کے ساتھ سامنے آئیں۔ وانگ اور ایڈورڈ وکرز کا مؤقف ہے کہ ایشیا میں یہ خصوصیات پہلے ہی خطے کی مرکزی دھارے کی سیاست میں اندر تک سرایت کر چکی تھیں، خاص طور پر ان ممالک میں جو نوآبادیات کے تیزی سے خاتمے کے بعد وجود میں آئے۔

ایسے کرشماتی رہنما جو شخصیت کے کلٹ اور انتہائی قوم پرستی، زینو فوبیا اور مذہب کے سیاست میں استعمال سے لیڈر بنے، ایشیا میں برسوں سے پیدا ہوتے آئے ہیں۔ لہٰذا، ایشیائی سیاست کو دیکھا جائے تو یہ کئی دہائیوں سے زیادہ تر فطری طور پر پاپولسٹ رہی ہے۔ اور سیاست کا یہ برانڈ بائیں بازو کے ساتھ ساتھ دائیں بازو میں بھی پیدا ہوتا رہا ہے۔ یہ خصوصیات بیش تر ایشیائی جمہوریتوں کی مرکزی دھارے کی سیاست کا پہلے سے حصہ ہیں، ایشیائی پاپولزم محض ان خصوصیات کی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔

لہٰذا، مغرب میں، پاپولزم سیاسی یا معاشی اشرافیہ کے ہاتھ میں ایک ہتھیار ہے جو بظاہر 'خاموش اکثریت' کے غصے اور 'حب الوطنی' کے جذبے کو اختیار کر کے اور اس کا استعمال کرتے ہوئے اسی اشرافیہ کے 'پرانے' دھڑے کی سیاسی طاقت کو ہتھیانے پر کمربستہ ہے۔ تاہم، ایشیا میں متوسط ​​طبقے کے گروہ انتہائی قوم پرستی اور مذہبی قوم پرستی کو بڑھاوا دے رہے ہیں جو پہلے ہی قومی دھارے کی سیاست کا حصہ ہیں تا کہ سیاسی طاقت کے ساتھ اپنے معاشی اثر و رسوخ کو بڑھا سکیں۔ یہ وہ سیاسی طاقت ہے جو وہ معاشی اشرافیہ کے پرانے طبقے سے چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں اور اب وہ خود بھی اسی اشرافیہ کا حصہ بن چکے ہیں۔

معاملہ بس اتنا ہے کہ مرکزی دھارے کے ایشیائی سیاسی نظاموں اور نفسیات میں پہلے سے موجود پاپولسٹ خصوصیات کو اپنے فائدے کے لیے کون زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اس میں بازی لے گئے۔ مغربی جمہوریتوں کے برعکس جہاں سیاسی جماعتوں کا ادارہ جاتی نظام موجود ہے، بیش تر ایشیائی جمہوریتیں ایسی سیاست پر مبنی ہیں جو سرپرست اور ماتحت کے تعلق پر انحصار کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت مرکزی حیثیت رکھتی ہے، یہاں تک کہ پارٹی سربراہوں کو مقدس مقام دے کر لوگ عقیدت مندوں کی مانند ان کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ لہٰذا، پاکستان میں مثال کے طور پر مرکزی دھارے کی تمام بڑی جماعتیں اپنے سربراہوں کو مقدس حیثیت دینے کی پوری پوری کوشش کرتی ہیں۔ لیکن عمران خان کے حامیوں نے انہیں مسیحا بنا کر ان کے مقام میں اور اضافہ کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے حامیوں نے بھی ان کی مقبولیت کے عروج پر انہیں یہی مقام عطا کیا تھا۔

مغربی جمہوریتوں میں، پاپولزم مضبوط پارٹیوں اور ووٹرز کے درمیان پھوٹ پڑنے کے نتیجے میں متبادل کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ متبادل مضبوط جماعتوں اور رائے دہندگان کے درمیان قائم مرکزی دھارے کی صف بندی میں مسلسل خلل ڈالتا رہتا ہے۔ اس لیے مغرب میں پاپولزم مضبوط پارٹی نظام اور انتخابی صف بندیوں میں خلل پیدا کرنے کا نام ہے۔

تاہم زیادہ تر ایشیائی جمہوریتوں میں پاپولزم اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مضبوط سیاسی جماعتیں مرکزی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتی ہیں (بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جھگڑوں کی وجہ سے) اور نئے طاقتور گروہ ابھرنے لگتے ہیں۔ یہاں پاپولزم کا پیدا ہونا بڑی حد تک اسٹیبلشمنٹ کی پرانی سیاسی جماعتوں سے ناراضی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ نئے طاقتور گروہ پرانی سیاسی جماعتوں کو کرپٹ قرار دیتے ہیں اور ان پر الزام دھرتے ہیں کہ انہوں نے نیشنل ازم، حب الوطنی اور ملک کی اکثریتی آبادی کے مذہب کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ دوسرے لفظوں میں ایشیا میں قائم سیاسی جماعتوں اور پاپولسٹوں کے درمیان جھگڑا اس بات پر نہیں ہے کہ کون زیادہ جمہوری ہے، بلکہ اس بات پر ہے کہ کون زیادہ محب وطن اور ایمان دار ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، اگرچہ مغرب میں بھی پاپولسٹ معاشی اشرافیہ کے انہی گروہوں سے نکلتے ہیں جن پر وہ بعد میں حملہ آور ہوتے ہیں، مگر ایشیائی جمہوریتوں میں اکثر یہی ہوتا ہے۔ اکتوبر 2023 میں انڈونیشیا کے صدر منتخب ہونے والے پرابوو سوبیانتو کی مثال لے لیں۔ حکمران اور معاشی اشرافیہ پر ان کے لفظی حملوں سے یہ حقیقت ختم نہیں ہو جاتی کہ ان کا اپنا تعلق بھی اسی اشرافیہ سے ہے۔ ان کا تعلق ایک مال دار گھرانے سے تھا اور 1990 کی دہائی میں وہ انڈونیشیا کی طاقتور فوج میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ اس تضاد کا جواب وہ یہ دعویٰ کرتے ہوئے دیتے ہیں کہ ان کا تعلق 'باشعور اشرافیہ' سے ہے، نہ کہ 'لالچی اشرافیہ' سے۔

وہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ اشرافیہ کا حصہ ہیں، اس لیے اشرافیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ بہترین انتخاب ہیں۔ اسی قسم کی باتیں عمران خان بھی کئی مرتبہ دہرا چکے ہیں، خاص طور پر جب جب انہوں نے 'مغربی لبرلز' اور 'مغربی استعماریت' پر طنز کیا۔ ایک وقت تھا جب عمران خان خود بھی بہت حد تک مغربی اشرافیہ کا حصہ تھے اور انہوں نے بطور کرکٹر اور 'پلے بوائے' لاہور سے زیادہ وقت لندن میں گزارا۔ عمران خان بھی اکثر کہہ چکے ہیں کہ انہی تجربات کی بنیاد پر وہ اشرافیہ کے خلاف بہتر انداز میں لڑ سکتے ہیں۔

مجموعی طور پر پاپولزم کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ بعض گروپس کی مایوسی، غصے اور خوف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو لازمی نہیں کہ اقلیت میں ہوں (بلکہ زیادہ کیسز میں یہ اکثریت میں ہوتے ہیں) مگر انہیں محسوس ہوتا ہے کہ حکمران اشرافیہ انہیں نظرانداز کر رہی ہے۔ مغرب میں ایسے گروپ سفید پوش محنت کش اور دیہی طبقات پر مشتمل ہوتے ہیں، جنہیں سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے 'خاموش اکثریت' کہا تھا۔ جب کالجز اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طبقات کے ساتھ یہ اپنا موازنہ کرتے ہیں تو انہیں احساس کمتری ہونے لگتا ہے۔ کالجز اور یورنیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ کلاس کو بہتر معاشی مواقع میسر آتے ہیں اور انہیں سیاسی، معاشی اور سماجی اثر و رسوخ استعمال کرنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔

پاپولسٹ اس 'خاموش اکثریت' کی 'آواز' بن جاتے ہیں جنہیں 'لبرل اشرافیہ' کی جانب سے بظاہر اہمیت نہیں ملتی، ان کا استحصال کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ ان کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔ تاہم بیش تر ایشیائی جمہوریتوں میں عموماً متوسط طبقات اس احساس میں مبتلا ہوتے ہیں اور یہ الزام لگاتے ہوئے حکمران اشرافیہ کے خلاف ردعمل ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی تمام تر دلچسپی محنت کش اور دیہی طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنے میں ہے کیونکہ متوسط طبقے کے مقابلے میں ان طبقات کے پاس زیادہ ووٹ ہیں۔ بھارت، تھائی لینڈ اور پاکستان اس رجحان کی مثالیں ہیں۔ کچھ ایشیائی جمہوریتوں میں بعض اوقات کسی اکثریتی نسلی گروہ سے تعلق رکھنے والے تمام طبقات پاپولزم کی جانب مائل ہو جاتے ہیں کیونکہ تاریخی طور پر اقلیتی گروہ کے مقابلے میں وہ زیادہ معاشی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر، ملائیشیا کے ماہر سیاسیات سیزا شکری کے مطابق، ملائیشیا کی ملائی اکثریت جو مسلمان ہے، اس میں احساس کمتری پیدا ہو چکا ہے کیونکہ ملک میں موجود غیر مسلم چینی اقلیت کو اکثر زیادہ کاروباری، محنتی اور تعلیم یافتہ کمیونٹی خیال کیا جاتا ہے۔ شکری لکھتے ہیں کہ پاپولسٹ ملائی سیاست دان اس خیال کو اکثر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اکثریت کے ساتھ اقلیت جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور ملائشیا کی اکثریت پسندی کو ان اقلیتی گروہوں سے خطرہ لاحق ہے جنہیں معاشی اور سیاسی اشرافیہ کے قریب رہ کر کام کرنے کے مواقع میسر ہیں۔

ایشیائی پاپولزم کا ایک اور دلچسپ پہلو شو بزنس اور کھیلوں کی مشہور شخصیات کا سیاست میں آ جانا یا پاپولسٹ رہنماؤں کے نمایاں حمایت یافتہ بننے کے رجحان میں اضافہ ہے۔ ہندوستانی پاپولسٹ وزیر اعظم اور ہندو قوم پرست رہنما نریندر مودی مشہور بالی ووڈ ستاروں میں گھرے رہنا پسند کرتے ہیں اور بدلے میں یہ ستارے ان کے پرستار اور یہاں تک کہ ان کے ماؤتھ پیس بن چکے ہیں۔ ان میں سے بعض ستاروں کو نریندر مودی کی پارٹی نے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ بھی دیے تھے۔ فلپائن میں بھی گذشتہ دو دہائیوں کے دوران شو بزنس کی بہت سی شخصیات پاپولسٹ حکمت عملیاں اپنا کر مقامی اور قومی انتخابات میں حصہ لے کر منتخب ہو چکی ہیں۔

یہاں سے سمجھ میں آتا ہے کہ شو بزنس اور پاپولزم قدرتی حلیف ہیں۔

*

ندیم ایف پراچہ نے یہ مضمون The Friday Times کے لیے لکھا ہے جسے نیا دور اردو قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔