18 جون 2021ء بروز جمعہ ایران میں تیرہویں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے، اگرچہ اس کے ساتھ بلدیاتی انتخابات اور بعض شہروں میں پارلیمنٹ اور مجلس خبرگان کے مڈٹرم انتخابات بھی تھے لیکن ان میں صدارتی انتخابات ایک نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ ایران میں اوسطاً تقریباً ہر سال ایک مرتبہ انتخابات منعقد ہوتے ہیں، جن میں عوام الناس اپنی رائے کا استعمال کرتے ہیں۔ صدارتی انتخابات کے لئے سینکٹروں امیدواروں نے اپنا نام لکھوایا، جن میں سارے قانونی تقاضے پورے کرنے والوں کی تعداد تقریباً 50 تھی، جن میں سے شوریٰ نگہبان نے قانونی مراحل اور تفتیش کی انجام دہی کے بعد 7 افراد کو صدارتی انتخابات لڑنے کی اجازت دی۔ ایران میں صدارتی امیدواروں کے درمیان مناظرہ، ان کی تشہیری ڈاکومنٹری اور انٹرویو کو سرکاری چینلز سے نشر کئے جانے کے بعد اور انتخابات سے ایک دن قبل 7 میں سے 3 افراد انتخابات لڑنے سے دستبردار ہوگئے۔ سعید جلیلی اور علی رضا زاکانی، قوہ قضائیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی کے حق میں اور محسن مہر علیزادہ جو اصلاح طلب گروہ سے تعلق رکھتے تھے؛ مرکزی بینک کے سربراہ ہمتی صاحب کے حق میں دستبردار ہوگئے۔
سابقہ پارلیمنٹ اسپیکر علی لاریجانی صاحب نے بھی کاغذات جمع کرائے تھے لیکن شوریٰ نگہبان نے انہیں الیکشن لڑنے کا اہل نہ جانا، جس کے بعد یہ بات غیر سرکاری طریقوں سے مشہور ہوئی کہ انہیں ان کی بیٹی کے امریکن نیشنل ہونے کی بنیاد پر رد کیا گیا ہے، جس کی بعد میں تردید کی گئی اور شوریٰ نگہبان نے یہ واضح کیا کہ انکو رد کرنے کی یہ وجہ نہیں ہے۔ مناظروں میں اصلاح پسند افراد کے دو نمائندے، جن میں سے ایک محسن علیزادہ جو خاتمی دور حکومت میں نائب صدر تھے اور دوسرے موجودہ حکومت میں مرکزی بینک کے سربراہ، ہونے کے باوجود ابراہیم رئیسی صاحب کی مقبولیت میں کوئی خاص کمی نہیں ہوسکی۔
اس مقبولیت کی چند وجوہات ہیں:
1۔ اصلاح طلبوں کی حمایت یافتہ روحانی حکومت کی ناقص کارکردگی، مذاکرات کی پے در پے ناکامی، مالی کرپشن میں متعقلہ افراد کا ملوث ہونا اور معیشت کے ناگفتہ بہ حالات۔
2۔ آیت اللہ رئیسی کا بطور متولی حرم امام رضا علیہ السلام مشہد مقدس، فلاحی کاموں کو فروغ دینا اور بہترین مدیریت پر مبنی کارنامہ، جس کی بنیاد پر گذشتہ انتخابات میں انہوں نے صدر روحانی کو ٹف ٹائم دیا تھا۔
3۔ آیت اللہ رئیسی کا قوہ قضائیہ کے سربراہ ہونے کے عنوان سے فساد اور کرپشن کے خلاف قوہ قضائیہ سمیت دیگر شعبوں میں بھی بھرپور کریک ڈاون، جس نے کئی کارخانوں کو تباہ ہونے سے بچایا اور سینکڑوں کارخانوں کو تباہ ہونے کے باوجود دوبارہ فعال کیا۔
موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی کو خود اس کے نمائندے مناظروں میں دفاع نہ کرسکے، اس کارکردگی سے ایک جانب لوگ اصلاح پسند طبقے سے بدظن ہوئے ہیں تو دوسری جانب ایک تعداد انتخابات سے مایوس، اس حوالے سے بین الاقوامی سوشل اور مین اسٹریم میڈیا کی جانب سے ایران انتخابات کے خلاف مہم کا بھی ایک اثر رہا ہے۔ آخری پارلیمانی انتخابات میں جب اصلاح طلب اور اصول پسند دونوں گروہوں کی جانب سے بھرپور فعالیت تھی اور دونوں جانب سے اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی فہرست نشر کی گئی تھی، اس میں کل ووٹ 42.5 فیصد پڑے تھے، جو پارلیمانی انتخابات کا کم ترین ٹرن آؤٹ تھا۔ بعض حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ابراہیم رئیسی صاحب کی مقبولیت یا واضح برتری کی ایک وجہ کسی مضبوط کھلاڑی کا مدمقابل نہ ہونا ہے۔
لیکن اگر ایرانی الیکشنز کی تاریخ دیکھیں تو ایسے کئی افراد نظر آئیں گے، جو مشہور اور مقبول نہ ہونے کے باوجود بعض بڑی شخصیات کے مقابلے میں کامیاب ہوئے، اس میں نمایاں نام محمود احمدی نژاد کا ہے، جن کا مقابلہ مرحوم ہاشمی رفسنجانی سے تھا، یعنی اس وقت بھاری شخصیت رفسنجانی صاحب تھے اور اس حوالے سے انکا کوئی مقابلہ نہیں تھا، لیکن بعض دیگر شخصیات اور حلقوں کی حمایت سے انہیں نمایاں برتری حاصل رہی۔ خود حسن روحانی صاحب نے جب پہلے دور کے لئے کاغذات جمع کروائے تھے تو ان کی مقبولیت نہ تھی، لیکن رفسنجانی صاحب کے کاغذات رد ہونے اور پھر روحانی کی حمایت کرنے سے حسن روحانی کی مقبولیت میں 50 فیصد اضافہ ہوا۔ اگر اصلاح طلب افراد کا ووٹ بینک برقرار ہوتا تو یقیناً امیدواروں میں تنہا اصلاح طلب رئیسی صاحب کو ٹف ٹائم دینے کی صلاحیت رکھ سکتا تھا۔
انقلاب اسلامی کی تاریخ میں سب سے کم ٹرن آؤٹ مرحوم جناب ہاشمی رفسنجانی کے دوسرے دور میں 50٪ رہا اور سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ احمدی نژاد صاحب کے دوسرے دور میں 87٪ رہا ہے۔ تمام تر سازشوں اور مشکلات کے باوجود انقلاب اسلامی کی تاریخ میں کبھی انتخابات معینہ مدت سے ایک دن بھی تاخیر کا شکار نہیں ہوئے۔ مغربی اور سعودی میڈیا ہمیشہ سے اس کوشش میں رہا ہے کہ ایران کا ووٹنگ ٹرن آؤٹ کم سے کم کیا جاسکے، اس سلسلے میں کئی چینلز فارسی زبان میں فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں، نیز سوشل میڈیا کمپین بھی اس حوالے سے ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔ انتخابات سے قبل 24 گھنٹوں میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کسی بھی مثبت یا منفی فضا سازی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس کا جواب دینے کی صلاحیت کوئی امیدوار نہیں رکھتا، کیونکہ قانونی طور پر کسی قسم کی تشہیراتی مہم نہیں کی جاسکتی۔
سعودی عرب کی جانب سے چلنے والے چینل " ایران انٹرنیشنل" پر آیت اللہ خامنہ ای نے سعودی حکومت کو نقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ: "دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض ممالک جو اکیسویں صدی میں بھی قبائلی انداز میں چل رہے ہیں، جنہوں نے انتخابات کی بو بھی نہیں سونگھی، جن کی عوام کو یہ بھی معلوم نہیں کہ بیلِٹ باکس اور فروٹ باسکٹ میں کیا فرق ہے، وہ ایران میں انتخابات کے خلاف میڈیا مہم چلاتے ہیں۔” اس کے علاوہ ایرانی مفرور بادشاہ کے بیٹے رضا پہلوی، 2009ء میں احتجاجی تحریک کے روح رواں میر حسین موسوی، فرانس میں موجود مجاہدین خلق دہشتگرد تنظیم کی سربراہ مریم رجوی سمیت سابقہ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے بھی الیکشن کی مخالفت اور ووٹ نہ ڈالنے کا اعلان کیا تھا۔ انتخابات کے آخری دنوں میں جب ابراہیم رئیسی صاحب کی جیت کے واضح اثار نظر آنے لگے تو یہ تاثر بھی عام ہوا کہ اب تو جہت واضح ہے، لہذا ووٹ دیں یا نہ دیں، جیتنا ابراہیم رئیسی کو ہی ہے۔
الیکشن سے دو دن قبل آیت اللہ خامنہ ای کی انتخابی پروسیس میں وسائل کے بروقت اور وافر مقدار میں اہتمام کرنے کی تاکید کے باوجود حکومتی اداروں نے ووٹ کاسٹنگ کا مرحلہ اکثر مقامات پر دیر سے شروع کیا نیز ووٹنگ میں تاخیر کے حوالے سے سینکڑوں شکایات دن میں ہی شوریٰ نگہبان کو موصول ہوگئی تھیں، دوسری جانب شدید گرمی کے باعث دن میں عوام کا رش معمولی رہا، لیکن شام ڈھلتے ہی قطاروں میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ جن امریکی، برطانوی اور سعودی چینلز اور ان کے حامی افراد نے عوام کو ووٹ ڈالنے کے خلاف ورغلایا تھا، وہ عوامی جوش و خروش دیکھ کر لوگوں کو عبد الناصر ہمتی، محسن رضایی کو یا مسترد احتجاجی ووٹ ڈالنے کی ترغیب دینے لگے، تاکہ خاطر خواہ ٹرن آؤٹ کے باوجود کوئی امیدوار 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کرسکے اور انتخابات دوسرے مرحلے پر چلے جائیں۔ شوریٰ نگہبان کے حکم کے مطابق ووٹنگ کا وقت رات دو بجے تک قابل تمدید تھا، نیز دن میں شکایات اور گرمی میں لوگوں کے لئے مشکل کے سبب یہ سلسلہ رات 2 بجے تک جاری رہا۔
بیرون ملک ایرانی باشندوں کو بھی ووٹ کاسٹ کرنے میں انقلاب مخالف، ایم کے او ارکان اور شاہی خاندان کے وفاداروں کی جانب سے اذیت اور مشکلات کا شدید سامنا رہا۔ یورپ و امریکہ میں ایران کے سفارت خانوں کے باہر انتخابات کے خلاف احتجاج کئے گئے اور ووٹ کاسٹ کرنے والوں کو ہوٹنگ، نعرے بازی، گالیاں حتٰی کہ مار پیٹ کے ذریعے اذیت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جو ایک جانب دشمن کی بے بسی کا ثبوت ہے تو دوسری جانب آزادی رائے کے مغربی کھوکھلے نعروں کی حقیقت۔ جس پر ایران کی وزارت خارجہ نے برطانوی سفیر کو طلب کرکے شکایت بھی کی ہے۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی، کرونا وباء کا خوف، شوریٰ نگہبان کی سخت چھانٹی، بعض داخلی عناصر اور عالمی طاقتوں کی انتخابات کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کے باوجود اب تک کی اطلاعات کے مطابق ٹوٹل ٹرن آوٹ تقریبا 48.8 فیصد رہا، جو اسلامی جمہوریہ ایران کے صدارتی انتخابات کا کم ترین ٹرن آؤٹ ہے، جس میں سے تقریباً 62 فیصد ووٹ لیکر آیت اللہ ابراہیم رئیسی اسلامی جمہوریہ ایران کی تیرہویں حکومت کے سربراہ اور آٹھویں صدر قرار پائے ہیں۔ اسکے علاوہ سپاہ پاسداران کے سابقہ چیف محسن رضائی 11 فیصد، اصلاح طلب اور روحانی حکومت کے حمایت یافتہ نمائندہ عبد الناصر ہمتی 8 فیصد اور اصول پسند امیدواروں میں سے ایک امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی 3 فیصد رائے لینے میں کامیاب رہے۔
ایران کے صدارتی انتخابات جہاں ایرانی عوام کے لئے اہمیت کے حامل ہیں، وہیں غیر ایرانی مسلمان اور اسرائیل مخالف دیگر ادیان کے پیروکاروں کی نگاہیں بھی اس پر جمی ہوئی ہیں۔ دنیا میں فسلطینیوں کی بے باک و بے خوف و لا محدود مدد کرنے والا تنہا ملک ایران داخلی طور پر مغربی ایشیاء کے حالات کی بہتری اور مسلمان ممالک میں امریکہ و اسرائیل کی دخل اندازی کی مخالفت پر جتنا ہم آہنگ اور ہم سو ہوگا مسلمانان عالم کے لئے اتنا ہی بابرکت ثابت ہوسکتا ہے۔ نیز علاقائی ممالک اور بالخصوص پڑوسی ممالک سے اقتصادی و سیاسی تعلقات کے لئے بھی ضروری ہے کہ حکومت کی نگاہ صرف امریکی و یورپی ممالک کی جانب ٹکی نہ رہے، جس کی نئی حکومت سے زیادہ امید کی جا رہی ہے، جو ایک جانب ایران کی اقتصاد میں معاون ثابت ہوگا تو دوسری جانب پڑوسی ممالک کی مشکلات کو دور کرنے کا سبب بھی ہوگا۔ نیز امت مسلمہ کو متحد کرنے کے لئے بھی ایران میں کسی آفاقی نگاہ رکھنے والے صدر کا ہونا ناگزیر ہے۔ امید ہے کہ آیت اللہ ابراہیم رئیسی کا یہ انتخاب ایران، فلسطین اور دیگر مسلمان ممالک کی اقوام کے لئے پربرکت واقع ہوگا۔