وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت پیمرا قوانین میں ترمیم لا رہی ہے۔ 2019ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چینلز کی درجہ بندی کی گئی۔ سابق دور میں میڈیا ہائوسز کو جاری ہونے والے اشتہارات کو صحافیوں کی تنخواہوں کی ادائیگی سے منسلک نہیں کیا گیا۔ سابق دور میں صحافیوں کو اغوا اور ان پر تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ ہمارے دور میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ صحافیوں کے خلاف درج ایف آئی آرز پر متعلقہ آئی جیز کو بلا کر ان کا موقف سنا جائے۔
اے پی پی کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت سینیٹر فیصل جاوید نے کی جبکہ اجلاس میں کمیٹی کے دیگر ارکان بھی موجود تھے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پیمرا کے حوالے سے ترمیم میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے، ہم جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی مشاورت سے ترامیم لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی ترمیم ہوگی وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ سابق دور میں تنخواہیں ادا نہ کرنے والے میڈیا ہائوسز کے اشتہارات بند نہیں کئے گئے اور نہ ہی انہیں صحافیوں کی تنخواہوں کی ادائیگی سے منسلک کیا گیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ورکرز کی تنخواہوں اور کنٹریکٹ کے حوالے سے قانون لایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2019ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چینلز کی درجہ بندی کی گئی۔ اس سے قبل اے، بی اور تھری کیٹیگری کے لحاظ سے اشتہارات جاری کئے جاتے تھے۔ اس درجہ بندی سے قبل پی آئی ڈی کا اشتہارات کا نظام بھی شفاف تھا۔ انہوں نے کہا کہ چینلز کی درجہ بندی پروگرام اور وقت کے حساب سے کی گئی۔ اشتہارات کے اجرا میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا۔ کسی چینل کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں رکھا گیا۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنے دور میں چینلز کی کیٹیگری تبدیلی کی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت آزادی صحافت پر کامل یقین رکھتی ہے۔ پچھلے چار سال صحافیوں، میڈیا ورکرز اور میڈیا ہائوسز کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سیاہ دور تھا۔ سابق دور میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغنیں لگائی گئیں، صحافیوں کو اغواء کیا گیا، ان پر تشدد کیا گیا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ابصار عالم، اسد طور یا عرفان صدیقی ہوں، جس جس صحافی کے ساتھ ظلم ہوا میں ہر جگہ اس کے ساتھ کھڑی رہی۔ آزاد میڈیا حکومت کا احتساب کرتا ہے۔ میڈیا کی تنقید سے ہم نے ہمیشہ رہنمائی لی ہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم نے یہاں موجود تمام صحافیوں کو سنا، جن کے خلاف ایف آئی آرز ہوئی ہیں ان کو بھی سنا ہے، بہتر ہے کہ تمام متعلقہ آئی جیز کو بلا کر ان کا موقف بھی سنا جائے، جب تک ایف آئی آرز پر ان کا موقف نہیں آئے گا، معاملہ کلیئر نہیں ہوگا جس پر کمیٹی نے صحافیوں پر درج ایف آئی آرز سے متعلق آئی جیز کو آئندہ اجلاس میں طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔
قبل ازیں اجلاس میں وزارت اطلاعات کی جانب سے کمیٹی کو 2008ء سے 2013ئ، 2013ء سے 2018ء اور 2018ء سے 2022ء تک حکومت کی جانب سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو جاری کئے جانے والے اشتہارات پر خرچ ہونے والی رقم اور ادائیگیوں کے طریقہ کار کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
کمیٹی کو وزارت اطلاعات کی طرف سے بتایا گیا کہ وزارت اطلاعات پانچ مرحلوں میں اشتہارات جاری کرتی ہے۔ پرنسپل انفارمیشن آفیسر مبشر حسن نے کمیٹی کو بتایا کہ وفاقی سرکاری اداروں کی طرف سے اشتہارات کی منظوری کے بعد پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ ادارے کی ضرورت کے مطابق اشتہارات جاری کرتا ہے۔ یہ اشتہارات پبلی کیشنز کو پی آئی ڈی سے براہ راست جاری کئے جاتے ہیں۔ حکومت اور وزارت اطلاعات کی طرف سے اشتہارات کے اجراء اور ادائیگیوں میں شفافیت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2013ء کے بعد پاکستان کے 70 سال مکمل ہونے پر بھی اشتہارات جاری کئے گئے، 2013ء سے 2018ء تک وزارت کی طرف سے الیکٹرانک میڈیا کو اشتہارات دیئے گئے، 2018ء سے آئوٹ ڈور کمپین شروع کی گئی۔ 2013ء سے 2015ء تک آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے بھی اشتہارات دیئے گئے۔
اجلاس میں اے آر وائی کے حوالے سے معاملہ پر چیئرمین پیمرا نے کمیٹی کو بتایا کہ اے آر وائی کے حوالے سے موصول ہونے والی شکایت پر کیبل آپریٹرز کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ اے آر وائی کی پلیسمنٹ تبدیل نہیں کی گئی۔
اجلاس میں ریڈیو پاکستان راولپنڈی کی زمین سے مختلف درختوں کی کٹائی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا جس پر سیکریٹری اطلاعات نے بتایا کہ وزیر اطلاعات کی ہدایت پر درخت کاٹنے کے معاملہ کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو آئندہ اجلاس میں اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کرے گی۔ کمیٹی کو تمام صوبائی حکومتوں بشمول گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کیلئے پی ٹی وی کی کوریج کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا۔