'بھارت سے مسابقت کیلئے ہمیں مضبوط معیشت اور بڑی مارکیٹ بننا ہو گا'

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خلیجی ممالک کے بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ وہ پاکستان کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں یا کمزور کرنا چاہتے ہیں، بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات خلیجی ممالک کا قومی مفاد ہے۔

'بھارت سے مسابقت کیلئے ہمیں مضبوط معیشت اور بڑی مارکیٹ بننا ہو گا'

بھارت میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آئی ہے، پاکستان جیسے ملکوں کے لیے بھارت سے مذاکرات اور سفارت کاری کے مواقع محدود ہوئے ہیں۔ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے اسی وجہ سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور دیگر خلیجی ممالک نے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کر رکھے ہیں کیونکہ بھارت تیل کی بہت بڑی مارکیٹ ہے اور خلیجی ممالک کا قومی مفاد اسی میں ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنا کے رکھیں۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ بھارت کے ساتھ مسابقت کے لیے اپنی معیشت کو مضبوط کرے اور دوسرے ممالک کے لیے ایک پرکشش مارکیٹ بن کر سامنے آئے۔ اسی صورت میں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر سمت اختیار کر سکتے ہیں ہیں۔ یہ کہنا ہے سینیئر سفارت کار اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے منیر اکرم کا۔

منیر اکرم نے ان خیالات کا اظہار نیو ویو گلوبل پر رضا رومی کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کیا۔ اس انٹرویو میں سفارت کار منیر اکرم سے مختلف سوالات کیے گئے اور انہوں نے نہایت وضاحت کے ساتھ ان کے جوابات دیے۔ اس انٹرویو کا خلاصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

سوال: آپ نے حق خود ارادیت کی بات کی، بیرونی قبضے کا ذکر کیا جائے تو کشمیر کی صورت حال بھی فلسطین سے ملتی جلتی ہے کیونکہ کشمیر سے متعلق بھی اقوام متحدہ میں قراردادیں پیش ہوتی ہیں، منظور ہوتی ہیں مگر بھارت ان کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ بنیادی حقوق اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی نکتہ اور اہم ستون ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے گھمبیر تنازعات نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق قوانین پر عمل درآمد کو غیر مؤثر ثابت کر دیا ہے۔ پاکستان اور دیگر ممالک سے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں مگر اقوام متحدہ ان خلاف ورزیوں کو بھی روکنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ آپ نہیں سمجھتے کہ انسانی حقوق کے معاملے میں اقوام متحدہ کے کردار پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے؟

منیر اکرم: میرا خیال ہے کہ فلسطین اور کشمیر دونوں ممالک کی صورت حال کو الگ الگ طریقے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ فلسطین اور کشمیر بیرونی قبضے، انسانی حقوق اور حق خود ارادیت کے معاملے میں اگرچہ یکساں نظر آتے ہیں اور ہمارا مؤقف یہ ہے کہ حق خود ارادیت بنیادی حقوق میں شامل ہے کیونکہ اگر کسی ملک کو حق خود ارادیت حاصل نہیں ہے تو وہ دیگر حقوق جیسے شہری، سیاسی اور معاشی حقوق نہیں حاصل کر پاتا۔ اس لیے یہ بنیادی اصول ہے کہ کسی ملک کے لوگوں اور ان کے حق خود ارادیت کو بیرونی قبضے یا بیرونی مداخلت کے ذریعے سے نہیں دبایا جانا چاہیے۔ جہاں تک ان انسانی حقوق پر عمل درآمد کا تعلق ہے تو اقوام متحدہ کے پاس اپنی کوئی فوج نہیں ہے اور اس کے پاس ایسی صلاحیت نہیں ہے جس کی مدد سے وہ ان حقوق پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے۔ اقوام متحدہ چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق اقوام متحدہ ان حقوق کے حصول کو اجتماعی ایکشن کے ذریعے ممکن بنا سکتا ہے۔ مذکورہ آرٹیکل اجازت دیتا ہے کہ اقوام متحدہ کسی ملک میں انسانی حقوق کے نفاذ کو طاقت یا سکیورٹی کونسل کے اجتماعی فیصلے کے ذریعے ممکن بنا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کے فیصلے کی روشنی میں اس طرح کے اقدامات ماضی میں اٹھاتا بھی رہا ہے۔ اس کی ایک مثال عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خلاف سکیورٹی کونسل کے فیصلے کے نتیجے میں کارروائی کرنا تھی، یہ کارروائی درست تھی یا غلط، یہ الگ بات ہے مگر اقوام متحدہ نے اسے یقینی بنایا تھا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

کشمیر اور پاکستان کے معاملے میں سکیورٹی کونسل کو ایسا کوئی اقدام اٹھانے سے ویٹو کے ذریعے روک دیا جاتا ہے۔ لہٰذا جب تک ہم سکیورٹی کونسل کو بھارت اور اسرائیل کی مضبوط افواج کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق متفقہ فیصلہ لینے پر قائل نہیں کر لیتے تب تک اقوام متحدہ براہ راست کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اگرچہ ان دونوں ممالک کی افواج کے خلاف ایکشن لینا بھی بہت بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ دونوں افواج بہت طاقتور ہیں۔ ایسی صورت حال میں جب سکیورٹی کونسل متفقہ فیصلے پہ نہیں پہنچ پاتی اور اقوام متحدہ براہ راست ایکشن نہیں لے سکتا تو اقوام متحدہ دیگر آپشنز کا استعمال کرتا ہے۔ ان میں قابض ملکوں کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگانا، ان کا بائیکاٹ کرنا، عالمی اداروں سے ان کی بے دخلی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ان ثانوی اقدامات کے ذریعے اقوام متحدہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کو ان حقوق پر عمل درآمد کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض صورتوں میں یہ ثانوی اقدامات کارگر بھی ثابت ہوئے ہیں جیسا کہ کئی افریقی ملک ان پابندیوں کے بعد عالمی قوانین کے نفاذ پر قائل ہو گئے۔ بعض دیگر ملکوں میں بھی ہمیں یہ فرق دیکھنے کو ملا۔ تو اقوام متحدہ کے چارٹر میں کچھ حدود و قیود شامل ہیں، ان حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔

سوال: پاکستان میں سویلین حکومتیں بھارت کے ساتھ تجارت اور دیگر معاملات پر ہمیشہ مذاکرات کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں، پاکستان میں بننے والی نئی حکومت بھی یہ کوشش کرے گی۔ مگر بھارت کی جانب سے جس طرح جموں اور کشمیر کی خودمختار حیثیت کو آرٹیکل 370 واپس لے کر ختم کیا گیا تو اس پیش رفت کے بعد پاکستان کی حکومت کے پاس بھارت کے ساتھ تعمیری مذاکرات کے مواقع محدود نہیں ہو گئے؟

منیر اکرم: اگرچہ آرٹیکل 370 کے خاتمے نے بھی پاکستان اور بھارت کے مابین سفارتی تعلقات اور مذاکرات کے مواقع کو محدود کیا ہے مگر ہمسایہ ملکوں کے مابین مذاکرات کا امکان کم ہونے کی وجہ محض آرٹیکل 370 کا ختم ہونا ہی نہیں ہے بلکہ اس کی سب سے بنیادی وجہ بھارت میں موجود حکومت کی نوعیت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات تب سے زیادہ خراب ہوئے ہیں جب سے بھارت میں مودی حکومت آئی ہے جس نے پاکستان، کشمیر اور بھارت میں آباد اقلیتوں سے متعلق جارحانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ مودی حکومت ہندوتوا نظریے کی بنیاد پر کھڑی ہے جو بے دخلی کا نظریہ ہے اور فاشزم کے بہت قریب ہے۔ اس حکومت کی موجودگی میں ان ملکوں کے لیے بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنا مشکل ہو جاتا ہے جو عزت نفس اور اپنی پہچان رکھتے ہیں اور جو اصولوں پر چلتے ہیں۔ سفارتی سطح پر مذاکرات سے کسی صورت انکار نہیں کیا جانا چاہیے اور اگر بھارت کے ساتھ مذاکرات کا کسی صورت آغاز ہوتا ہے تو ان سے ناانصافی پر بات ہونی چاہیے اور ایک ایسی بنیاد بنانے پر مذاکرات ہونے چاہئیں جس پر چلتے ہوئے جموں اور کشمیر سے متعلق کوئی منصفانہ حل نکالا جا سکے۔ ایک ایسی بنیاد پر بات ہونی چاہیے کہ پاکستان کو بھارت کی جانب سے طاقت کے استعمال کی دھمکی کا سامنا نہ کرنا پڑے جیسا کہ ہمیں اس وقت کرنا پڑ رہا ہے اور ایک ایسی بنیاد پر مذاکرات ہونے چاہئیں جس میں بھارت میں آباد 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ انصاف کا مطالبہ کیا جائے۔

سوال: بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کے برادر اسلامی ممالک یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر وغیرہ کے ساتھ جس طرح کے تعلقات قائم کیے ہیں اس سے بھی پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد خاص طور پر وزیر اعظم مودی اپنے طویل دورے پر متحدہ عرب امارات، فلسطین اور قطر گئے جبکہ بعد میں سعودی عرب بھی گئے جس سے ان کا مقصد بھارت میں آباد مسلمانوں کو تو ایک پیغام دینا ہی تھا، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان کو بھی ایک واضح پیغام دیا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں کسی نئی سمت کی ضرورت نہیں؟

منیر اکرم: خلیجی ممالک کے ساتھ ہمارا بہت گہرا رشتہ ہے جو مذہب، عقیدے اور کلچر کی مضبوط بنیاد پر کھڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات استوار ہیں۔ لیکن ہمیں خلیجی ممالک کے نکتہ نظر سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے اور تیل کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ خلیجی ممالک کو تیل برآمد کرنے کے لیے بھارت اور چین جیسے بڑے ملکوں کی ضرورت ہے اور انہیں ان ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ یہ خلیجی ممالک کے قومی مفاد کا معاملہ ہے تو یہ ان کی مجبوری ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کے رکھیں۔ ہمیں خلیجی ممالک کی اس مجبوری کو سمجھنا ہو گا۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خلیجی ممالک کے بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ وہ پاکستان کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں یا کمزور کرنا چاہتے ہیں، بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات خلیجی ممالک کا قومی مفاد ہے۔

اس صورت حال میں پاکستان کو یہ کرنا چاہیے کہ اپنی معیشت کو مضبوط کرے، اپنی مارکیٹ کو وسیع کریں تاکہ دیگر ممالک پاکستان کو بھی ایسے ملک کے طور پر دیکھیں جہاں سے وہ کاروباری فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں ہم بھارت کے ساتھ ایک توازن پیدا کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس پہلو پر سوچ بچار کرتے ہوئے طریقہ نکالنا ہو گا کہ ہم کس طرح ناصرف خلیجی بلکہ دیگر ملکوں کے لیے بھی ایک پرکشش مارکیٹ بن سکتے ہیں۔ ہمیں ایک مضبوط ملک بننا ہو گا، ہماری معیشت مستحکم ہو گی تو دیگر ملک ہمارے ساتھ سماجی، ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی تعلقات بہتر بنانے پر آمادہ ہوں گے۔