پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے 2019 میں بطور وزیر اعظم اس وقت کے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ عاصم منیر کو عہدے سے اس لیے ہٹایا کیونکہ وہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرنا چاہتے تھے۔
بین الاقوامی اشاعت دی ٹیلی گراف نے اپنی اشاعت میں بتایا گیا کہ جنرل عاصم منیر کو تین سال کی مدت کے لیے اس عہدے پر تعینات کیا گیا تھا، لیکن 2019 میں انہیں صرف آٹھ ماہ بعد ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر بننے سے پہلے وہ ملٹری انٹیلی جنس چیف کے طور پر فوج کے اندرونی معاملات کی نگرانی کرتے تھے۔آئی ایس آئی کے انچارج کے طور پر عہدہ سنبھالنے کے بعد ابتدا میں ہی ان کا اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے تنازع شروع ہو گیا۔
مضمون کے مطابق جنرل عاصم منیر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی اور ان کے قریبی لوگوں پر کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرنا چاہتے تھے جس کے بعد انہیں جون 2019 میں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے آٹھ ماہ بعد ہی ہٹا دیا گیا۔
فوج نے تنظیم نو کا کوئی جواز پیش نہیں کیا اور جنرل منیر کو تبدیل کر کے ایک آرمی کور کی سربراہی کے لیے پنجاب بھیج دیا۔
لندن میں قائم چیتھم ہاؤس تھنک ٹینک کی فرزانہ شیخ نے بتایا کہ جنرل منیر کو ان کے جاننے والے لوگوں نے سیدھے تیر کے طور پر بیان کیا ہے۔ اور واضح طور پر عمران خان اور ان کے بیچ مسائل شروع ہو گئے جب انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر عمران خان کی توجہ ان کے خاندان کے افراد کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی طرف توجہ مبذول کروانے کا فیصلہ کیا۔
کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے جنرل عاصم منیر کو انہی بنیادوں پر برطرف کیا تھا تاہم اس کے باوجود اس کے کہ خان نے عمران خان نے اس معاملے پر کبھی کھل کر بات نہیں کی۔
عمران خان کا ملک کی حکومت اور عسکری قیادت کے ساتھ 13 ماہ کا تنازع کے نتیجے میں پاکستان ایک سیاسی بحران میں داخل ہو گیا ہے جو کہ ان کے جنرل عاصم منیر کے ساتھ ذاتی تنازع کے جیسا ہی ہے۔
عمران خان کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ جنرل عاصم منیر کی شناخت خان انہیں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے سے روکنے کے منصوبے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔
برطانوی اخبار کے مطابق عمران خان انہی وجوہات کو بنیاد بنا کر آج تک جنرل عاصم منیر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور حالیہ دنوں میں عمران خان جنرل عاصم منیر پر یہ الزام بھی لگا چکے ہیں کہ وہ آئین، جمہوریت اور ہمارے بنیادی حقوق کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
اگرچہ عمران خان نے اپنے ان دعوؤں کا بہت کم ثبوت دکھایا ہے کہ طاقتور جرنیلوں اور سیاسی مخالفین امریکہ کی مدد سے انہیں عہدے سے ہٹایا تھا، لیکن ان کے دعووں کو کافی حمایت حاصل ہوئی۔
وہ ماضی میں خود جرنیلوں کے پسندیدہ تھے اور ان پر الزام ہے کہ جب اقتدار میں تھے تو اپنے ہی سیاسی حریفوں کو تنگ کرتے تھے۔
ڈاکٹر شیخ نے کہا کہ اس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کا مسئلہ اس تنظیم یا ڈھانچے کے بجائے آرمی لیڈر کے ساتھ ہے جو فوج کو فیصلے کرنے کا اختیار دیتا ہے۔واقعی عمران خان جس چیز سے پریشان ہیں وہ ایک فوجی ادارہ ہے جس نے اب ان کی حمایت کرنا چھوڑ دی ہے۔ تاہم عمران خان واقعی چاہتے ہیں کہ فوج ان کے ساتھ رہے۔
دوسری جانب ٹیلی گراف میں شائع ہونے والے آرٹیکل کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ نہ تو مجھے جنرل عاصم نے میری اہلیہ کی کرپشن کا کوئی ثبوت دکھایا اور نہ ہی میں نے انہیں مستعفیٰ ہونے پر مجبور کیا۔
عمران خان نے ٹیلی گراف میں شائع ہونے والے مضمون کو جعلی قرار دیا ہے۔
https://twitter.com/ImranKhanPTI/status/1660299094068465669?s=20
واضح رہے کہ جنرل عاصم منیر ستمبر 2018 میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تعینات ہوئے تھے۔تاہم جون 2019 میں ان کی جگہ لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کر دیا گیا تھا۔گزشتہ برس سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل ایسی چہ مگویاں عام تھیں کہ عمران خان نے جنرل عاصم منیر کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی ان کے عہدے سے ہٹوایا تھا۔