ٹرمپ کا تازہ بیان اور پاکستان امریکہ کے جھوٹ اور مفادات پر مبنی تعلقات

ٹرمپ کا تازہ بیان اور پاکستان امریکہ کے جھوٹ اور مفادات پر مبنی تعلقات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے واضح الفاظ میں بول دیا کہ پاکستان نے آج تک امریکہ کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ فاکس نیوز (Fox News) کو دیے گئے انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کو فوجی امداد کی بندش کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوا کہا کہ پاکستانی حکام نے اسامہ بن لادن کو گیریژن شہر ایبٹ آباد میں چھپایا ہوا تھا۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہم پاکستان کو 1۔3 بلین ڈالرز سالانہ دیتے رہے اور وہ اسامہ بن لادن کو اپنے پاس پالتا رہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اشارتاً یہ بھی کہا کہ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ اسامہ بن لادن کو کس نے پاکستان میں چھپا کر رکھا تھا۔ امریکہ کی جانب سے گذشتہ چند برسوں سے پاکستان پر کڑی تنقید کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ پاکستان کا افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کیلئے افغان طالبان کے دھڑوں کی سرپرستی ہے۔ اس میں رتی برابر بھی شک نہیں ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ سے ڈالروں کے عوض جنگیں لڑی ہیں۔ پہلے سرد جنگ میں ڈالروں کے عوض پاکستان کی جانب سے امریکہ کی ایما پر روس کی جاسوسی اور مخبری کی جاتی رہی اور پھر 1979 میں ڈالروں کے عوض نام نہاد افغان جہاد شروع کیا۔ نائن الیون کے بعد ایک بار پھر ڈالروں کے عوض دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کیلئے خدمات سرانجام دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن، طالبان کے حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کی اور خطے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کیلئے افغانستان میں پراکسی جنگ میں اپنا مفاد آگے رکھا۔ وزیراعظم عمران خان کی ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر تنقید اپنی جگہ لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان نے روز اول سے امریکی اتحادی بننے کا جو فیصلہ کیا اس کے نقصانات حاصل کردہ فوائد سے کئی گنا زیادہ ہیں۔

بدقسمتی سے ہم نے ہمیشہ امریکہ کی پراکسی جنگوں کو لڑا اور اپنا تشخص خود امریکہ کیلئے کرائے پر لڑنے والی ریاست کے طور پر پوری دنیا میں قائم کیا ۔ ڈالر سپانسرڈ افغان جہاد سے لیکر وار آن ٹیررزم تک ہم نے امریکہ سے ڈالرز کے عوض جنگیں لڑیں۔ یہ وہ کڑوی حقیقت ہے جسے کسی بھی طور جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اس دوران اپنی ہی سرزمین پر ہم امریکی ڈرون حملے بھی نیم رضامندی سے برداشت کرتے رہے اور ایبٹ آباد میں امریکی فوج کی کارروائی پر بھی ہم نے چپ سادھ لی۔ اسامہ بن لادن کا ایبٹ آباد سے برآمد ہونا ہمیں پوری دنیا میں رسوا کرواتے ہوئے ہماری دہشتگردی کے خلاف جنگ میں دی گئی قربانیوں کو بھی اقوام عالم میں ضائع کروا گیا۔ افغانستان میں حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے چند عناصر کی سرپرستی نے رہی سہی کثر بھی پوری کر دی۔ اب امریکہ اپنے دیے گئے ڈالرز کے عوض آپ سے گڈ طالبان سمیت حافظ سعید جیسے خود ساختہ سٹریٹیجک اثاثوں کو تلف کروانا چاہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کو پیدا کرنے میں خود امریکہ کا بھی ہاتھ ہے۔ حافظ سعید یا مسعود اظہر جیسے شدت پسندوں کی جانب سے بھی امریکہ نے اپنے مفادات کے تحت ایک لمبے عرصے تک آنکھیں پھیر کر رکھیں لیکن اب امریکی پالیسی مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے اور دنیا کا اصول یہ ہے کہ جو ملک کسی دوسرے ملک کو جنگی اتحادی ہونے کی مد میں پیسہ دیتا ہے وہ اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے اور پیسہ لینے والے ملک کو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے، بھی مسلط کردہ شرائط کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے بڑھکیں لگانے یا جذباتی بیانات دینے سے ارباب اختیار شاید عوام کو تو "ہیلوسینیشن" میں مبتلا رکھ سکتے ہیں لیکن اس کا کوئی بھی خاطر خواہ اثر ٹرمپ انتظامیہ یا عالمی دنیا پر نہیں پڑے گا۔ دنیا ہمارے مؤقف کو تسلیم نہیں کرتی اور اس کی بڑی وجہ ہمارا وہ بیانیہ ہے جو دنیا کو بزور طاقت اور شدت پسند گروہوں کے دم پر فتح کرنے کے گرد گھومتا ہے۔

ایٹم بم یا حافظ سعید جیسے شدت پسندوں کے دم پر اگر دہلی فتح ہو سکتا یا دنیا میں غلبہ پایا جا سکتا تو پھر مہذب اقوام اپنا بیانیہ سائنس، ٹیکنالوجی اور علم کے گرد قائم نہ کرتیں۔ اگر ہم نے اے پی ایس کے معصوم بچوں کو گنوانے کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا اور ہٹ دھرمی سے اپنے گلے سڑے بیانئے پر قائم رہے جس کا واضح ثبوت عصمت اللّٰہ معاویہ کا ریاستی پروٹوکول کے ساتھ پشاور میں رہنا اور احسان اللّٰہ احسان جیسے درندے کا بطور مہمان بن کر رہنا ہے تو غالباً اب بھی ہم یہ بیانیہ تبدیل نہیں کریں گے۔ دوسری جانب امریکی بیانیہ ہے جو پوری دنیا میں امن و امان کے خراب کرنے اور قتل و غارت گری کا باعث بنا ہوا ہے۔ عراق، لیبیا، مصر اور افغانستان میں جنگ و جدل اور قتال میں امریکی بیانئے کا واضح کردار ہے۔ اور پاکستان نے اس امریکی بیانئے کو اپنی حیثیت اور بساط سے بڑھ کر تقویت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے بدلے میں پاکستان امریکہ سے کبھی کولیشن سپورٹ فنڈ تو کبھی سیدھی فوجی امداد، کبھی عالمی محاذ پر امریکہ کی خاموش سفارتی حمایت اور کبھی بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے امریکی دباؤ کی بنیاد پر قرضے حاصل کر کے امریکی آشیرباد سے مستفید ہوتا رہا ہے۔ اب مسئلہ یوں ہے کہ امریکہ پاکستان سے حقانی نیٹ ورک سمیت تمام جہادی تنظیموں کے خلاف ٹھوس کارروائی چاہتا ہے۔ پچھلے سال بھی امریکہ نے پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے ہاتھوں ایک کینیڈین خاندان کو چھڑوانے کیلئے سرجیکل سٹرائک کی دھمکی تھی۔ اور جب انٹیلیجینس رپورٹ سے پتہ چلا کہ امریکہ پاکستانی حدود میں ایبٹ آباد طرز کی ایک اور کارروائی کر سکتا ہے تو انتہائی پھرتی سے کینیڈین خاندان کو بازیاب کروا کر امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے پاکستان پر دباؤ بڑھا دیا اور ہمیشہ کی ڈو مور کا مطالبہ شروع کر دیا جس کے جواب میں پاکستان کی سول اور عسکری قیاست نے نو مور کی صدا بلند کی۔

ہمارے پالیسی ساز اور سابق ڈکٹیٹر، پرویز مشرف جب رچرڈ آرمٹیج کی ایک فون کال پر ڈھیر ہوتے ہوئے امریکی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے رہے تھے، اس وقت ان سے حالات و واقعات سمجھنے میں سنگین غلطی کا ارتکاب ہوا۔ پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ روس کے خلاف ڈالر سپانسرڈ افغان جہاد کی مانند اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیکر نہ صرف اپنے کشمیر کی پراکسی جنگ لڑنے والے جہادی گروہوں سے امریکہ اور دنیا کی توجہ ہٹا لی جائے گی بلکہ افغانستان میں 90 کی دہائی کی مانند پاکستان کے حمایت یافتہ گروہ کو طاقت کی بساط میں حصہ دلوا کر اپنا اثر و رسوخ خطے میں بڑھایا جا سکے گا۔ اس کے برعکس امریکہ نے جو منصوبہ بنایا وہ افغانستان پر لمبے عرصے تک قابض ہوتے ہوئے پاکستان کے اثرو رسوخ کو افغانستان میں کم کرنا تھا۔ امریکہ کو افغانستان سے کھربوں ڈالرز کی ہیروئن پر بھی قابض ہونے کا موقع ملا اور معدنیات بھی اس کے حصے میں آئیں۔ جبکہ اس نے اس دوران اپنے ہی تیار کردہ جہادیوں کو بھی ختم کرنا شروع کر دیا۔ پاکستان کو جب اس جنگ کے اثرات کا سامنا اپنے وطن میں دہشتگردی اور خون ریزی کی صورت میں کرنا پڑا تو پھر پاکستان نے اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد عناصر جو کہ بھارتی پراکسی کے طور پر استعمال ہو رہے تھے ان کی سرکوبی کیلئے اقدامات اٹھائے۔ لیکن پاکستان کے اندر جہاد اور شدت پسندی کا جو بیانیہ کروڑہا اذہان میں منتقل ہو چکا تھا اس کی بدولت آج بھی پاکستان میں ہر سطح اور ہر ادارے پر دہشت گردوں اور جہادیوں کی حمایت موجود ہے۔

امریکہ کو اس امر کا ادراک کرنا ہو گا کہ ان بیانیوں کے زیر اثر پروان چڑھنے والی نسلوں کو شدت پسندی سے گریز کروانا ایک طویل اور صبر آزما عمل ہے جس کیلئے دہائیاں درکار ہیں۔ اس عمل میں اگر امریکہ پاکستان پر بلا جواز تنقید کرنے کے بجائے پاکستان کے زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے پاکستان کا امن پسند بیانیہ تشکیل دینے میں ساتھ دے تو دونوں ممالک نہ صرف طویل مدتی پارٹنر شپ کے ذریعے اپنے اپنے اہداف حاصل کر سکتے ہیں بلکہ باہمی اعتماد کی فضا کو بھی پروان چڑھا سکتے ہیں۔ لیکن اس کیلئے امریکی صدر ٹرمپ کو افغانستان اور جنوبی ایشیا کے زمینی حقائق کا ادراک کرنا ہو گا۔ بصورت دیگر اب پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد چین اور روس کے ساتھ اتحادی بننے کے جانب مرکوز کرنی ہوگی۔ لیکن ساتھ ساتھ پیسہ لے کر کسی بھی ملک کی پراکسی جنگ خواہ وہ امریکہ ہو یا سعودیہ، کے عمل اور عادت کو اب ترک کرنا ہوگا۔ وگرنہ دنیا ہمیں کرائے پر لڑنے والی اجرتی ریاست سمجھ کر ہمیشہ ڈو مور کا تقاضہ کرتی رہے گی۔ وطن عزیز کے بیتے گذشتہ ستر برسوں میں امریکی اور دنیا کے طعنے سننے سے لیکر پاکستان کی دہشت گردی کی جنگ میں قربانیوں سے دنیا کے انکار کے اس سفر تک حاصل کردہ سبق واضح اور آسان ہے کہ ریاست کو دفاعی سٹیٹ کے بجائے فلاحی ریاست میں تبدیل کیا جائے اور ہمسایوں سے امن پر مبنی تعلقات قائم کرتے ہوئے قومی بیانئے کو علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر تشکیل دیتے ہوئے جہادی اور شدت پسندی پر مبنی بیانیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ ریاست کو دوسروں کی پراکسی جنگوں میں دھکیلنے کے بجائے اس کو دوسروں کے معاملات سے علیحدہ رکھتے ہوئے صرف معاشی ترقی کی جانب تمام تر توانائیاں صرف کی جائیں۔ ریاست اگر ایجادات اور علم و آگہی کے حوالے سے دنیا بھر کی خبروں کہ زینت بنے گی تو ٹرمپ سمیت کوئی بھی قوت پاکستان کو برا بھلا کہنے کی جرأت نہیں کرے گی۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ سے جھوٹ اور مفادات کے حصول پر مبنی رہے ہیں۔ اس جھوٹ اور مفاد کے کھیل میں پاکستانی اشرافیہ اور امریکہ کو تو فائدہ ہوا ہے لیکن پاکستان کے عوام اس کھیل کے باعث شدت پسندی کی نہ ختم ہونے والی آگ میں جھونک دیے گئے ہیں۔ اس کھیل کو ختم کر کے ہی پاکستان سے شدت پسندی اور جہالت کا خاتمہ ممکن ہے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔