کیا مریم نواز کو سیاسی میدان کھلا چھوڑ دینا چاہیے؟

کیا مریم نواز کو سیاسی میدان کھلا چھوڑ دینا چاہیے؟
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف علاج کی  غرض سے لندن میں قیام پذیر ہیں اور بظاہر ایسے نظر آرہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے سیاسی محاذ پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ اس پر مہر تصدیق اس وقت ثبت ہوجاتی ہے جب ایک مشترکہ اعلامیہ کی صورت رہبر کمیٹی ملک بھر سے دھرنوں کے خاتمے کا اعلان کرتی ہے، جو اپوزیشن کی مستقبل کی سیاست پر سوالات کھڑے کر دیتی ہے۔

مسلم لیگ ن اور مریم نواز

نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد مسلم لیگ ن کو سیاسی محاذ پر لاتعداد مسائل کا سامنا ہے، اس تناظر میں پارٹی کو ایک ایسی متحرک اور توانا آواز کی ضرورت ہے جو موجودہ احتساب کے جاری عمل کے دوران مسلم لیگ ن کو متحد رکھ سکے اور اس کے لئے مریم نواز وہ واحد شخصیت ہیں جو اس ہیجان کی کیفیت سے پارٹی کو نکال سکتی ہیں، وہ اپنے اسی بیانیے کو دوبارہ اپنی ہمہ گیر شخصیت کی بدولت دوبارہ فعال کرسکتی ہیں، جس کا ناطہ احتساب مقدمات میں گرفتاری کے بعد معطل ہو گیا تھا۔

یہ صورتحال ماضی میں بینظیر بھٹو کو بھی دیکھنے کو ملی، مگر اس وقت انھوں نے اسے موقعے میں تبدیل کر دیا اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو جمہوری نظام کی حقیقی بحالی کے لئے عوام سے رجوع کرنے پر مجبور کر دیا۔ آج ایک بار پھر پاکستان کی سیاست ایک ایسے ہی لیڈر کی متمنی ہے جو نظام کی مصلحتوں سے نکل کر قیادت کا کردار ادا کرے، کیونکہ پاکستان آج جن مسائل کا سامنا کر رہا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام کی آواز بنا جائے۔ انھیں وہ اعتماد دوبارہ دیا جائے جو 25 جولائی کے انتخابات کے بعد شاید کہیں تاریک راہوں میں بھٹک گیا ہے۔

کیا مسلم لیگ ن اور بالخصوص مریم نواز اس تاریخی موقع کو ضائع کر دیں گی؟ صرف اس لئے کے پارٹی کے بعض رہنما سیاسی مصلحتوں کا شکار ہیں اور جمہوریت کی حقیقی بحالی کے لئے جنگ لڑنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ایسی صورتحال پاکستان کی تقریبا تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں دیکھنے کو ملتی ہے جو کہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔



مسلم لیگ ن میں قیادت کا بحران؟

یہ تو حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک نواز شریف کی وجہ سے ہی قائم ہے، شہباز شریف کی کارکردگی چاہے کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو جائے، پنجاب کا ووٹر نواز شریف کی طرف ہی دیکھتا ہے، ہاں یہ ایک سیاسی حقیقت ہے کہ شہباز شریف کی انتظامی کارکردگی نے ہمیشہ مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک کو مضبوط کیا ہے اور وہ خلا پیدا نہیں ہونے دیا کہ کوئی دوسری جماعت آکر اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کر سکے۔

مگر سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب جبکہ نواز شریف جو مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد بھی ہے، علاج کی غرض سے لندن میں قیام پذیر ہیں اور شہباز شریف کے حوالے سے خبریں آرہی ہیں کہ وہ بھی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ہی لندن میں قیام کریں گے۔ تو ایسی صورت میں مسلم لیگ ن کی قیادت کون کرے گا؟

اگر قیادت کا یہی بحران رہا تو خدشہ ہے کہیں غیرجمہوری قوتیں جو پہلے ہی موقعے کی تلاش میں ہیں اس جماعت میں دڑار پیدا کی جائے اور پنجاب میں سیاسی طاقت کو کمزور کیا جائے تاکہ مستقبل میں اگر موجودہ نظام کا تسلسل برقرا رکھنا ضروری بھی ہو تو  اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو یہ ان کروڑوں عوام کے ساتھ بھی ناانصافی ہوگی جو ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید ایک دن ان کی آواز بھی اقتدار کے ایوانوں میں سنی جائے گی۔



مریم نواز اور پنجاب کا سیاسی میدان

پنجاب کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں بڑی سیاسی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ پنجاب میں عثمان بزدار کی صورت تحریک انصاف نے جس کو پنجاب کا تخت سونپا ہے اس کے اقتدار کی کرسی پنجاب کی روایتی سیاست کی وجہ سے ہچکولے کھا رہی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق انتظامیہ پر 14 ماہ بعد بھی گرفت کا مضبوط نہ ہونا سیاسی بلوغت کی کمی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس تناظر میں نئی سیاسی صف بندیاں ہونے والی ہیں۔ یہ وہ پس منظر ہے جو مریم نواز کو سیاسی میدان میں بھرپور کردار ادا کرنے کے لئے سازگار موقعے فراہم کرتا ہے۔

سیاسی صورتحال کا تقاضا ہے کہ مریم نواز اپنی سیاسی حکمت عملی کے لئے نئے سرے سے اپنی ٹیم تشکیل دیں، قابل بھروسہ پارٹی رہنماؤں کو آگے لایا جائے۔ سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر عوامی سیاست کرنا ہوگی، جس کا مظاہرہ عوام نے اس وقت دیکھ لیا تھا جب مریم نواز اپنے والد کیساتھ اپنی بیمار ماں کو بستر مرگ پر چھوڑ کر لندن سے پاکستان واپس آئیں تھیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ گرفتاری ان کی منتظر ہے، مگر وہ آئیں۔

یہ الگ اور بحث طلب معاملہ ہے کہ اس کا نتیجہ 25 جولائی کے انتخابات میں عوامی خواہشات کے برعکس نکلا۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی میدان کو کھلا چھوڑنے کی بجائے عملی طور پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا جائے، اب یہ مریم نواز پر منحصر ہے کہ آیا وہ ایک بار پھر خاموشی اختیار کرلیتی ہیں یا عوام سے رابطہ استوار کرنے کے لئے دوبارہ متحرک ہوتی ہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ارسلان سید، ایکسپریس نیوز میں بطور پروڈیوسر–کرنٹ آفئیرز اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ گذشتہ 6 سال سے میڈیا سے وابسطہ ہیں، اس دوران مختلف ٹیلی ویژن چینلز میں کام کرچکے ہیں، حال ہی میں IBA-CEJ سے انسانی پہلووں پر رپورٹنگ میں ڈیجیٹل میڈیا کے کردار پر خصوصی فیلوشپ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ انسانی حقوق، آزادی صحافت اور جمہوریت کے زبردست حامی ہیں۔