مغربی اور یورپی ممالک کا یہ زعم ہے کہ فراخ دلی اور روشن خیالی کے لحاظ سے وہ دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے مگر جب بات مسلمانوں یا مسلمان ملکوں کی آتی ہے تو ان کی ساری روشن خیالی اور وسعت قلبی محض ڈھونگ اور دکھاوا نظر آنے لگتی ہے۔ یہاں پہنچ کر ان کی رواداری کی اقدار کھوکھلی دکھائی دینے لگتی ہیں۔
2022 کا فیفا فٹ بال ورلڈکپ قطر میں ہو رہا ہے۔ مگر یوں دکھائی دیتا ہے کہ مغرب سے ایک مسلمان ملک میں ہونے والا فٹ بال کا ورلڈکپ ہضم نہیں ہو رہا۔ مختلف چیزوں کو موضوع بنا کر قطر کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب سے قطر پر خواتین، ٹرانسجینڈر افراد اور مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے تنقید کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ قطر کی ورلڈکپ انتظامیہ نے فٹ بال سٹیڈیم کے اندر شراب لانے اور پینے پر پابندی عائد کی ہے جس کو لے کر بھی قطر کے اس فیصلے پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب قطر میں ورلڈکپ کا آغاز ہو چکا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے یہ ساری تنقید محض قطر اور مسلمان ملکوں کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لئے کی جا رہی ہے۔
بی بی سی سپورٹس کی صحافی الیگز سکاٹ نے اپنے ایک حالیہ ٹوئٹ میں قطر کو عورتوں، ٹرانسجینڈر افراد اور مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس سے پہلے فرانس کے مشہور اخبار لی کینارڈ ان چین نے اپنے خاص شمارے میں قطر کی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کو دہشت گردوں سے تشبیہ دی تھی جس سے ان کی اسلام دشمنی اور نسل پرستی کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ اسی طرح فرانس کے بڑے بڑے شہروں میں جن میں پیرس بھی شامل ہے، فن زون میں فٹ بال ورلڈکپ کے میچز نہیں دکھائے جا رہے۔ فرانسیسی حکام نے اس کی وجہ قطر کی جانب سے بیرونی ممالک سے آئے ہوئے مزدوروں کے انسانی حقوق کی پامالی کو قرار دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق کی پامالی کا معاملہ اس وقت سے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جب سے قطر کو فیفا ورلڈکپ 2022 کی میزبانی کے حقوق ملے تھے۔ حالانکہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) نے وضاحت کی ہے کہ قطر نے مزدوروں کے حقوق کے بارے میں کافی بہتری دکھائی ہے اور اس معاملے پر مزید اصلاح کے لئے قطر کی حکومت نے مناسب قانون سازی بھی کی ہے۔
دوسری جانب فیفا کے صدر گیانی انفانٹینو نے قطر کے خلاف اس رویے پر 19 نومبر کو ایک پریس کانفرنس میں مغربی اور یورپی ممالک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسری اقوام کو اخلاقیات اور انسانیت کا درس دیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں بھی ایک یورپی باشندہ ہوں مگر یورپ میں بسنے والے ہم لوگ اس دنیا کے ساتھ پچھلے 3 ہزار سال سے جو کچھ کر رہے ہیں اس کے لئے ہمیں دنیا سے اگلے 3 ہزار سال تک مسلسل معافی مانگنی ہو گی۔ اس کے بعد کہیں جاکر ہم اس پوزیشن میں ہوں گے کہ دوسروں کو اخلاقیات کا درس دے سکیں۔ صدر گیانی انفانٹینو نے کہا کہ مغربی اور یورپی کمپنیاں جو سالوں سے قطر اور خطے کی باقی ریاستوں سے اربوں کی تجارت کر رہی ہیں انہوں نے آج تک ان ممالک کے حکام سے مزدوروں کے حقوق کے بارے میں بات کیوں نہیں کی؟ ٹرانسجینڈر افراد کے موضوع پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قطر میں ہم جنس پرستی غیر قانونی فعل ہے مگر اس کے باوجود قطری حکام نے ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو ورلڈکپ دیکھنے کے لئے خوش آمدید کہا ہے۔
جہاں تک شراب کی ممانعت کا تعلق ہے تو بہت کم ایسے مقامات ہیں جہاں سے شراب نہیں خریدی جا سکتی۔ ایسے مقامات کی تعداد 8 یا 10 ہو گی مگر 200 ایسے مقامات ہیں جہاں سے شراب باآسانی خریدی جا سکتی ہے۔ فٹ بال کے میچز میں سٹیڈیمز کے اندر شراب پر پابندی عائد کرنا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے یورپی ممالک جیسا کہ فرانس، سپین، پرتگال اور سکاٹ لینڈ بھی فٹبال سٹیڈیمز کے اندر شراب لانے پر پابندی عائد کر چکے ہیں۔
گیانی انفانٹینو نے قطر کے فیصلوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ قطر نے جو بھی فیصلے لئے ہیں وہ فیفا کے ساتھ بات چیت کے بعد اور فیفا کی رضامندی سے لئے ہیں۔ فیفا کے صدر کی گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قطر پر مغربی اور یورپی ممالک کی تنقید صرف ان کی مسلمان دشمنی اور انسانی حقوق پہ منافقت کو آشکار کرتی ہے۔
نیویارک میں ایم ایس این بی سی (MSNBC) سے وابستہ کالم نگار ایمان محی الدین نے اپنے 20 نومبر کے کالم میں لکھا ہے کہ مغربی ٹیموں کے کھلاڑی قطر پر انسانی حقوق کے حوالے سے تنقید کر رہے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں مگر انہوں نے اپنے ممالک کی جانب سے انسانیت پہ ڈھائے گئے مظالم پر کبھی آواز نہیں اٹھائی جو ان کے دوغلے رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مغربی ممالک جو قطر پر ٹرانسجینڈر افراد کو لے کر تنقید کر رہے ہیں، ان کا مؤقف بے بنیاد اور مشکوک نظر آتا ہے کیوںکہ امریکہ میں ابھی تک وہی میرج ایکٹ رائج ہے جس کے مطابق صرف مرد اور عورت کی شادی کو جائز اور قانونی قرار دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک کو قانون اور کلچر میں فرق سیکھنا چاہئیے۔ ان کے مطابق امریکہ میں صرف ایک سال میں ٹرانسجینڈر افراد کے حقوق کو سلب کرنے کے لئے 240 بل کانگریس میں لائے گئے ہیں مگر ان پر کوئی تنقید نہیں کی گئی۔ ان معاملات پر صرف قطر کو نشانہ بنانا نسل پرستی اور علاقائی و مذہبی تعصب کو ظاہر کرتا ہے۔
مغربی اور یورپی ملکوں کی جانب سے کسی غیر یورپی اور خاص طور پر مسلمان ملک کے اوپر انسانی حقوق کی آڑ میں تنقید کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مغربی ممالک نے ہمیشہ اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے انسانی حقوق کو وجہ بنایا ہے جبکہ ان ممالک کی جارحانہ اور سفاک پالیسیوں کی بدولت پوری دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی ہوئی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے۔ ان بے بنیاد الزامات اور تعصب سے بھرپور تنقید پر فیفا کے صدر گیانی انفانٹینو نے جو مؤقف اختیار کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ اب دور بدل چکا ہے اور اب مغربی ممالک انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی منافقانہ روش کی تشہیر کر کے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے۔ قطر کو تنقید اور تذلیل کا نشانہ محض اس وجہ سے بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ ایک اسلامی اور عرب ملک ہے۔ مغربی اور یورپی ممالک کی یہ روش قطعاً غیر منصفانہ ہے۔
یہاں یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ قطر اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ملکوں میں انسانی حقوق کی پامالی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اس پر بات ہونا ضروری ہے۔ لیکن مغرب کی منافقت بھی اتنا ہی سنجیدہ اور حل طلب معاملہ ہے۔
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔