’’خوابوں میں جب پاکستان گئی رے
انڈیا میں بولے ساڈی جان گئی رے‘‘
یہ ہیں وہ لائنیں جنہیں سُن کر بھارت میں صف ماتم بچھ گیا ہے۔ آر ایس ایس کی صفوں میں کہرام مچ گیا ہے اور بی جے پی کی رات کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ عجلت میں بنائی گئی فلم " کاف کنگنا" کا ٹریلر دیکھنے کے بعد مودی سرکار سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ جب فلم سنیما گھروں کی زینت بنے گئی اور ادھر مودی سرکار ہاتھ جوڑ کر پاکستان سے درخواست کرے گی کہ ’لو بھائی کشمیر لو اور ہماری جان چھوڑو‘۔
اگر میری بات مانیں تو 2014 کی طرح ڈی جے بٹ کی خدمات حاصل کریں اور سیز فائر لائن پر بھارتی چوکیوں کی جانب ’وڈے سپیکر‘ لگا کر آج تک جاری کیے گئے تمام منہ توڑ جوابات ایک لوپ میں چلا دیں، تو ممکن ہے مسئلہ جلد نمٹ جائے۔ خیر، اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو کم از کم یہ تو پتہ چل ہی جائے گا کہ یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہے۔
یہ لائن لکھتے ہوئے مجھے ایک چھوٹا سا لطیفہ یاد آگیا ہے۔ شاید یہ کوئی سچا واقعہ ہی ہو لیکن کوئی ہمارے جذبہ حُب الوطنی پر کوئی شک نہ کرے، اس لئے ’لطیفہ‘ سمجھ کر ہی پڑھیں۔
ایک بار کہیں پڑھا تھا اور متعدد بار دوستوں کی محفل میں سُنا ہے کہ:
برطانوی دور حکومت میں گاؤں سے جبری فوجی بھرتی کرنے کے لئے مہم شروع کی گئی۔ ایسے میں ایک میراثی کو بھی بھرتی کیا گیا اور اس کی ماں کو بتایا گیا کہ جنگ کے لئے تمھارے بیٹے کو بھی چنا گیا ہے، تمہیں فخر کرنا چاہیے، جس پر میراثی کی ماں نے جواب دیا کہ:
’پتر گل تے فخر دی اے، پر ملکہ نوں کہنا جے گل میراثیاں دے بچیاں تکر آگئی اے تے فیر صلح کر لے‘
(بیٹا بات تو واقعی فخر کی ہے لیکن ملکہ کو کہنا کہ اگر بات میراثیوں کے بچوں تک آ گئی ہے تو پھر صلح کر لے)
ناجانے کیوں کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ شاید ’اب صلح کا وقت آ گیا ہے‘۔
بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں پہنچ گئی، ایک تو یہ آوارہ گرد قلم!
ہاں! تو میں بات کر رہا تھا فلم ’ کاف کنگنا‘ کی جس میں ہونٹ کے اوپر تِل یافتہ، خوبرو اداکارہ نیلم منیر نے وطن سے محبت کا انوکھا انداز اپنایا ہے۔ جی، بالکل انوکھا انداز، نیلم منیر نے نوجوانوں کے وقت کے زیاں کے لئے بنائے گئے پلیٹ فارم انسٹاگرام پر انگریزی میں لکھا ہے، جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے کہ:
’’اس گانے پر اس لئے پرفارمنس کی کیوں کہ یہ فلم پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کا پروجیکٹ ہے۔ شاید یہ میری زندگی کا پہلا اور آخری آئٹم نمبر ہے، سب جانتے ہیں کہ میں جو بھی کرتی ہوں، اس کی ذمہ داری لیتی ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔ پاکستان کے لئے ہمیشہ میری جان بھی حاضر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس فلم کو دیکھنے جاؤ گے، انجوائے کاف کنگانا‘‘
نیلم منیر نے جو لکھا اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ’آئٹم نمبر تو کیا ملک کے لئے جان بھی حاضر ہے‘
صد افسوس! کہ میں ملک کے لئے یہ سب نہیں کر سکتا، نہ تو میں خوبرو ہوں، نہ میرے ہونٹ پر تِل کی صورت میں دربان اور نہ ہی میری کمر میں وہ دم خم جو اس ملک کی خدمت کے لئے ضروری ہے۔
اب تو بس انتظار ہے کہ کب ’ کاف کنگنا‘ ریلیز ہو اور میں وطن عزیز پر پورے ایک ہزار روپے قربان کر کے سنیما کی پہلی صفوں میں کھڑا ملوں تاکہ دشمن کے دانت کٹھے کر سکوں۔
اس فلم اور بالخصوص گانے کی ایک مثبت بات اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اب جلد ہی دنیا کی نمبر ون فوج کے ساتھ ساتھ دنیا کی نمبر ون فلمساز انڈسٹری کا اعزاز بھی پاکستان کو مل جائے گا۔