کیپٹین صفدر کی کراچی میں گرفتاری نے پاکستان کی سیاست میں طلاطم پیدا کردیا ہے تو ساتھ ہی ساتھ صوبے اور وفاق کے درمیان انتظامی اور آئینی تصادم کی سی صورتحال بھی پیدا کردی گئی۔ اس سب میں آئی جی سندھ کے اغوا اور کیپٹین صفدر کی گرفتاری کی فوٹیج سامنے آنے کے بعد سے نئی بحث کا آغاز ہوا ہے۔
اس حوالے سے ن لیگ نے اندراج مقدمہ کی ایک درخواست دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئی جی سندھ کو اغواء کیا گیا، اور اس میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، تاہم یہ مقدمہ تاحال درج نہیں ہوسکا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ بااثر لوگ آئی جو ایک نامعلوم مقام پرلے گئے۔ اور آئی جی کا فون بھی کئی گھنٹےتک بند رہا۔ یہ بااثر لوگ تحریک انصاف کی ایما پر کام کر رہے تھے۔ قانون ہے کہ صرف ایک ایف آئی آر کی بنا پر گرفتاری نہیں ہوتی۔ یہ بھی کہا گیا کہ جس نے مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی پی ٹی آئی کا وہ کارکن اس وقت مزار پر موجود ہی نہیں تھا۔
صحافی شاہزیب خانزادہ نے اپنے شو میں ہی فوٹیج دیکھاتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ جس وقت کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا گیا تو ایک سیکیورٹی ادارے کی گاڑی آواری ہوٹل کی اینٹرنس پر آکر کھڑی رہی اور جب پولیس کی گاڑیاں گرفتاری کےبعد ہوٹل سے نکلیں تو اسی گاڑی نے ہٹ کر انہیں راستہ دیا۔
اس حوالے سے آج مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور ملک کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری بہت سے شک و شبہات پیدا کرتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ حکومت چادر اور چار دیواری کو پامال کرنے میں مصروف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیپٹن صفدر پر ایف آئی آر کے حقائق بھی آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں، وفاق صوبے پر حملہ آور ہوا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم واقعے پر وزیراعلیٰ سندھ سے رابطہ کرتے لیکن انہوں نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ آئی جی سندھ کے گھر کا گھیراؤ کرنے والے دونوں ادارے رینجرز اور آئی ایس آئی وزیر اعظم کے ماتحت ہیں، آئی جی سندھ پر مقدمہ درج کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، دونوں ادارے وزیر اعظم کو رپورٹ کرتے ہیں، ذمہ داری وزیر اعظم کی ہے، کس نے دو اداروں کو ہدایات دیں، ہدایات صرف اور صرف ملک کا وزیراعظم دے سکتا ہے۔