یونیورسٹی آف پشاور اوریونیورسٹی آف بلوچستان فنڈز کی عدم دستیابی کے سبب وینٹی لیٹر پر ہیں

یونیورسٹی آف پشاور اوریونیورسٹی آف بلوچستان فنڈز کی عدم دستیابی کے سبب وینٹی لیٹر پر ہیں
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و فنی تربیت کو حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی پانچ بڑی جامعات میں سے دو جن میں یونیورسٹی آف پشاور اور یونیورسٹی آف بلوچستان فنڈز کی عدم دستیابی کے سبب وینٹی لیٹر پر ہیں۔

کمیٹی کا اجلاس چیئر مین کمیٹی سینیٹر عرفان الحق صدیقی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاﺅس میں منعقد ہوا۔ کمیٹی کو ملک کی بڑی پانچ پبلک سیکٹر جامعات کے وائس چانسلرز نے اپنی مالی و انتظامی معاملات پر تفصیلی بریفنگز دیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ بلوچستان یونیورسٹی کو اس وقت 565ملین جبکہ جامعہ پشاور کو سالانہ 745 ملین کے خسارے کا سامنا ہے۔ جامعہ بلوچستان کے وائس چانسلر نے کمیٹی کو بتایا کہ یونیورسٹی لیبز برسوں سے بند پڑی ہیں، یونیورسٹی کے پاس لیب کیلئے کیمیکل خریدنے کا بھی بجٹ موجود نہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کمیٹی کو بتایا کہ یونیورسٹی کا سالانہ مجموعی بجٹ ایک ارب ستر کروڑ ہے جس میں ایک ارب روپے فقط پینشنز کی ادائیگیوں میں صرف ہو جاتا ہے اور یونیورسٹی کو شدید خسارے کا سامنا ہے۔ وائس چانسلر یونیورسٹی آف پنجاب نے کمیٹٰی کو بتایا کہ جامعہ کا مالی سال 2020-21کا مجموعی بجٹ بشمو ل سپلیمنٹری گرانٹ7ارب 45کروڑ ہے جبکہ اسی برس کا جامعہ کا مجموعی خرچہ 8ارب 61کروڑ ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے جامعہ کو 2ارب 90کروڑ روپے گرانٹ دی گئی ہے جبکہ بقیہ اخراجات جن کی مجموعی مالیت 4ارب 53کروڑ ہے جامعہ اپنے ریسورسز سے اگھٹا کرتی ہے ۔جامعہ کو سالانہ 1ارب 16 کروڑ روپے خسارے کا سامنا ہے ۔جامعہ کراچی سمیت قائد اعظم یونیورسٹی کو بھی فنڈز کی کمی سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بتایا کہ 600ایکڑ اراضی پر غیر قانونی قبضہ جمایا جا چکا ہے اور ہاسٹلوں کے بیچ گاؤں بن گئے ہیں۔

ایک اور پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز نے کمیٹی کو بتایا کہ وفاق اور صوبوں کی طرف سے ہر سال سالانہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ کا اعلان تو کر دیا جاتا ہے لیکن ایچ ای سی کی طرف سے جامعات کیلئے ریکننگ گرانٹ میں تنخواہوں میں اضافہ کے حکومتی اعلان کا حصہ نہیں دیا جاتا، جس کے سبب پبلک سیکٹر جامعات کا خسارہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔

قائمہ کمیٹی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو یونیورسٹی آ ف بلوچستان اور یونیورسٹی آف پشاور کو ترجیحی بنیادوں پر مالی تعاون کی فراہمی یقینی بنانے سمیت ہر سال حکومتوں کی طرف سے تنخواہوں میں اعلان کردہ اضافے کے برابر ریکننگ گرانٹ میں اضافہ کرنے کی سفارش کرنے سمیت پنجاب یونیورسٹی، جامعہ کراچی، قائد اعظم یونیورسٹی، یونیورسٹی آف بلوچستان اور پشاور یونیورسٹی کی طرف سے گزشتہ تین برسوں میں شائع کردہ ریسرچ جنرلز کے جائزہ کیلئے سب کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایچ ای سی کی طرف سے فنڈز ایلو کیشن کے ایجنڈے پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہائیر ایجوکیشن کمیشن شائستہ سہیل نے بتایا کہ کمیشن پبلک سیکٹر جامعات کو ریکننگ فنڈ کے علاوہ پرفارمنس پر ڈیویلپمنٹ فنڈز دیتا ہے۔

روان برس وفاقی بجٹ میں ایچ ای سی کو پبلک سیکٹر جامعات کے ریکرنگ کیلئے سپلیمنٹری گرنٹ ملی جس کی مد میں کل 68 ارب روپے کی ایلوکیشن کی گئی ہے ۔جس میں سے کمیشن نے پبلک سیکٹر جامعات اور ہائر ایجوکیشن اداروں کو تنخواہوں کی مد میں 55ارب سے زائد ادا کئے ہیں۔

کمیشن کے اپنے ملازمین کا ریکرنگ بجٹ 870ملین روپے سالانہ ہے ۔کمیٹی نے ٹیکنالوجسٹ سٹریکچر بابت گزشتہ کا جاری کردہ نوٹیفکیشن تا حال کینسل نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایڈیشنل سیکرٹری ایجوکیشن آئندہ اجلاس میں بتائیں کہ ایچ ای سی نے کمیٹی کی طرف سے پاس کردہ سفارشات پر تا حال عمل درآمد کیوں نہیں کیا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔