Get Alerts

پاکستان میں سبھی سیاست دانوں کو اپنا اپنا آرمی چیف چاہیے

پاکستان میں سبھی سیاست دانوں کو اپنا اپنا آرمی چیف چاہیے
قیام پاکستان سے لے کر اب تک جس مسئلے نے پاکستان کے عوام اور اس کے سیاسی اور فوجی اداروں کو سب سے زیادہ الجھا رکھا ہے وہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہے۔ جمہوری ملکوں میں یہ معاملہ اس قدر پریشانی کا سبب نہیں بنتا کیوں کہ وہاں تمام فوجی اور نیم فوجی ادارے سیاسی اداروں کے ماتحت کام کرتے ہیں اور ہر ادارے کی حدود ہوتی ہیں جو آئین وضع کرتا ہے۔ تمام فوجی تعیناتیاں آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے کی جاتی ہیں مگر بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا۔ یہاں آئینی حد بندیوں اور طریقہ کار کو بالائے طاق رکھ کراپنی اپنی پسند اور مرضی کا آرمی چیف لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک مکمل طور پر انتظامی معاملے کو شدید سیاسی معاملہ بنا دیا جاتا ہے جبکہ پاکستان کے آیئن میں یہ نکتہ واضح ہے کہ جو فوجی آفیسر زیادہ سینئر ہوگا، اس کو وزیراعظم کی سفارش پر صدر پاکستان آرمی چیف تعینات کر دیں گے۔

پاکستان میں اس حمام میں سب سیاستدان بلا تفریق ننگے ہیں کیوں کہ سب اپنی اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانا چاہتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں طاقت کا مرکز عوام نہیں بلکہ فوج ہے اور اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کے بعد وہ ملک کے مطلق العنان حکمران بن سکیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسا زیرک سیاستدان بھی اس غیر آیئنی اقدام سے خود کو نہ بچا سکا۔ دلچسپ اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سیاستدان ہر وقت فوج کے سیاسی کردار کا رونا روتے رہتے ہیں مگر جب آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ آتا ہے تو تمام انتظامی اور آئینی قوانین کی دھجیاں اڑا کر صرف اپنے ذاتی مفاد کو ملحوظ نظر رکھا جاتا ہے۔ اس سے پوری دنیا میں ملک کی جگ ہنسائی ہوتی ہے اور سکیورٹی اداروں کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے جس کی بدولت عوام میں بے چینی اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور ان کا اداروں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد سے 1951 تک برطانوی جنرل پاکستان کی فوج کی کمان سنبھالتے رہے۔ جنرل گریسی آخری غیر مسلم اور غیر پاکستانی آرمی چیف تھے۔ ان کے بعد جنرل ایوب خان کو پاکستان کا آرمی چیف بنایا گیا حالانکہ ایوب خان کے بارے میں قائداعظم کی واضح تنبیہ تھی کہ ان کی ترقی کے بارے میں محتاط رویہ اپنایا جائے کیوں کہ ایوب خان سیاسی عزائم رکھتے ہیں مگر بانی پاکستان کی دوراندیشی کو اس وقت کے سیاستدانوں نے نظر انداز کر دیا جس کا خمیازہ 1958 میں پہلے مارشل لا کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ایوب خان نے اپنی خود نوشت 'فرینڈز ناٹ ماسٹرز' میں ان سیاستدانوں کا بھی ذکر کیا ہے جنہوں نے ایوب خان کو مارشل لا لگانے کا مشورہ دیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی آرمی چیف ملکی سیاست میں مداخلت کرنے اور آئین توڑنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا جب تک کہ اس کو سیاستدانوں کی طرف سے ترغیب اور مدد نہیں ملتی۔ اگر تمام سیاستدان فوج کے غیر سیاسی کردار پر اکٹھے ہوتے تو آج ملک کے حالات یہ نہ ہوتے۔

پاکستان میں جو سیاستدان بھی اقتدار میں آیا اس نے کوشش کی کہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کئی سینئر جرنیلوں کی سینارٹی کو نظرانداز کر کے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا۔ بھٹو صاحب نے ضیاء الحق کو آرمی چیف بنانے سے پہلے ان کے بارے میں رپورٹ لی تو ان کو بتایا گیا کہ یہ صاحب انتہائی غیر سیاسی ہیں اور اپنا زیادہ تر وقت گولف کھیلنے اور نماز پڑھنے میں صرف کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب کو ان کی یہ ادا بڑی پسند آئی لہذا انہوں نے آیئنی اور قانونی طریقہ کارکو چھوڑ کر اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ضیاء الحق کو آرمی چیف مقرر کر دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے بعد میں جو سلوک بھٹو صاحب اور اس ملک کے آیئن، قانون اور عوام کے ساتھ کیا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔

نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں نسبتاً غیر سیاسی اور معتدل مزاج آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو اپنی مدت ملازمت پوری کرنے سے پہلے ہٹا کر ایک جونیئر جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا جس کی وجہ سے کئی سینئر جرنیلوں کے ساتھ زیادتی ہوئی اور ان کا حق مارا گیا۔ پرویز مشرف کی تقرری کے وقت بھی نوازشریف نے وہی غلطی کی جو بھٹو صاحب نے کی تھی کہ آیئنی اور قانونی طریقہ کار کو چھوڑ کر پرویز مشرف کے غیر سیاسی اور مڈل کلاس خاندانی پس منظر والی غیرمنطقی سوچ کو ترجیح دی اور پھر جو مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے آرمی چیف نے ان کے ساتھ کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یاد رہے کی یہ نواز شریف کے اس دور کی بات ہے جب ان کے پاس پاکستان کی تاریخ کی مضبوط ترین حکومت تھی جو عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد بنائی گئی تھی۔ اس کے باوجود بھی ان کو اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کی ضرورت پیش آئی۔ بقول سینئر سیاستدان سیدہ عابدہ حسین، نواز شریف بطور وزیراعظم اتنے مضبوط ہونا چاہتے تھے کہ خود کو بادشاہ اور امیر المومنین دیکھنا چاہتے تھے۔

یہ بات بھی حیران کر دینے والی ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو جیسی جمہوری مزاج کی لیڈر جب پرویزمشرف جیسے ڈکٹیٹر کے ساتھ معاہدہ کرتی ہے تو مشرف کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی کو آرمی چیف لگانے پر اصرار کرتی ہے کیوںکہ جنرل کیانی محترمہ کے ملٹری سیکرٹری رہ چکے تھے۔ اس لئے وہ باقی وزرائے اعظموں کی طرح برسر اقتدار آنے کے بعد اپنی پسند کا آرمی چیف چاہتی تھیں۔ ان کی شہادت کے بعد جب پاکستان پیپلزپارٹی حکومت میں آئی تو صدر زرداری نے جنرل کیانی کو مدت ملازمت میں توسیع دے کر اپنی پسند کا آرمی چیف لگانے کی روایت کو برقرار رکھا۔

موجودہ دور کی سیاست میں عمران خان اپنی پسند کا آرمی چیف لگانے کی روایت کے بہت ناقد دکھائی دیتے تھے اور اس بات پر بہت زور دیتے تھے کہ آرمی چیف کی تقرری کے معاملے میں اپنی اپنی پسند کی بجائے سنیارٹی کے طریقہ کار کو اپنایا جائے مگر جب وہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے میرٹ کے برعکس جنرل قمر جاوید باجوہ کو بطور آرمی چیف توسیع دے دی اور پھر اپنی حکومت کے چھن جانے کے بعد اپنی پسند کے لگائے ہوئے آرمی چیف ہی کو مورد الزام ٹھہرانے لگے۔ عمران خان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد اپنے بیانیے پر عمل کرتے ہوئے میرٹ اور سنیارٹی کے مطابق آرمی چیف کا تقرر کریں گے مگر بد قسمتی سے وہ بھی اسی بہاؤ میں بہہ گئے اور اپنی پسند کا آرمی چیف لگانے والے گرداب میں پھنس گئے۔

عمران خان تو باقی وزرائے اعظموں پر بھی سبقت لے گئے کیوںکہ وہ نہ صرف آرمی چیف اپنی پسند کا چاہتے تھے بلکہ آئی ایس آئی کا سربراہ بھی اپنی پسند کا چاہتے تھے۔ انہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی بطور کور کمانڈر پشاور تقرری کو روک کر اپنی سیاسی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا اور ان کو عسکری اور سیاسی حلقوں میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہیں سے ان کے اور عسکری اداروں کے درمیان معاملات بگڑنے شروع ہوئے جو بالآخر ان کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئے۔ بنی گالہ میں دیئے گئے حالیہ انٹرویو میں عمران خان نے سینئر صحافی حامد میر کو بتایا ہے کہ وہ جنرل فیض حمید پر زیادہ انحصار کر بیٹھے تھے جو کہ غلط تھا اور جنرل فیض حمید کے تبادلے کو روکنا ان کی غلطی تھی جس کی بدولت ان کے اور فوجی قیادت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔

بدقسمتی سے یوں دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے ملک کے سیاستدانوں نے بشمول عمران خان کے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ آج پھر پاکستان اسی دوراہے پر کھڑا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نومبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ عمران خان نے اپنے فیصل آباد والے جلسے میں بیان دیا تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری اپنی مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں جبکہ وہ یعنی عمران خان چاہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تقرری میں ذاتی پسند کی بجائے سنیارٹی اور میرٹ کا خیال رکھا جائے اور یہ بھی نیا آرمی چیف محب الوطن ہو۔ عمران خان کے اس بیان نے پاکستان کے سیاسی و عسکری حلقوں میں کھلبلی مچا دی کیوںکہ ان کے بیان سے نئے آرمی چیف کی تقرری کا عمل بذاتِ خود متنازع ہو گیا ہے۔ اس کے بعد عمران خان نے کامران خان کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف یہ اشارہ دیا کہ وہ موجودہ آرمی چیف کو نئی حکومت آنے تک مزید توسیع دینے پر راضی ہیں۔ عمران خان کو اس بات پر قوی یقین ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں پھر سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے لہذا وہ اگلے آرمی چیف کی تقرری اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔

دراصل معاملہ وہی پرانا ہے جو قیام پاکستان سے چل رہا ہے کہ اس ملک میں سب کو اپنی اپنی پسند کا اوراپنا اپنا آرمی چیف چاہئیے۔ کیوںکہ یہاں سب اقتدار میں آنے کے بعد ساری طاقت کا مرکز اپنی ذات کو بنانا چاہتے ہیں اور اس حقیت کو بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں جمہوریت نام کی بھی کوئی چیز ہے جس کے مطابق طاقت ایک جگہ پر اکٹھی نہیں ہوتی بلکہ اداروں میں آئینی اعتبار سے یکساں طور پر تقسیم ہوتی ہے تا کہ ادارے اس آئینی طاقت کے ذریعے اپنی اپنی حدود میں رہ کر عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام جاری رکھ سکیں۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔