مفتی تقی عثمانی کی معترض نگاہوں کو فقط 'مس یونیورس' مقابلہ ہی کیوں نظر آیا؟

مولانا صاحب سے گزارش ہے کہ ذرا اس پر بھی کوئی بیان داغیں کہ پاکستان کے دینی مدارس معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے گڑھ بن چکے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ایسے کیسز ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں جہاں دینی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جانے والے معصوم بچے ان مولویوں کی جنسی درندگی کا نشانہ بنتے ہیں۔

مفتی تقی عثمانی کی معترض نگاہوں کو فقط 'مس یونیورس' مقابلہ ہی کیوں نظر آیا؟

وطن عزیز کے ایک نامور، ممتاز اور جید عالم دین اور سابق جج مفتی تقی عثمانی صاحب ایک ٹویٹ میں فرماتے ہیں کہ "روزنامہ جنگ کی خبر ہے کہ پانچ دوشیزائیں عالمی مقابلہ حسن میں پاکستان کی 'نمائندگی' کریں گی۔ اگر یہ سچ ہے تو ہم کہاں تک نیچے کریں گے؟ حکومت اس خبر کا فوری نوٹس لے کر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے اور کم از کم ملک کی 'نمائندگی' کا تاثر زائل کرے"۔

مولانا صاحب سے گزارش ہے کہ ذرا اس پر بھی کوئی بیان داغیں کہ پاکستان کے دینی مدارس معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے گڑھ بن چکے ہیں۔ مفتی صاحب آپ کی آگاہی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ ابھی آپ کی اس ٹویٹ سے چند دن قبل سندھ کے ایک علاقے میرپور ماتھیلو میں ایک عالم دین حافظ عظیم سومرو کی ایک بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کی تصاویر سوشل میڈیا پر زیر گردش رہیں۔ اس سے پہلے ایک حافظ قرآن مولوی لاڑکانہ میں چار بچوں سے زیادتی کرتا پکڑا گیا۔ روزانہ کی بنیاد پر ایسے کیسز ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں جہاں دینی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جانے والے معصوم بچے ان مولویوں کی جنسی درندگی کا نشانہ بنتے ہیں۔

2018 میں لاہور کے ایک مدرسے میں 6 مولویوں پر مشتمل ایک گروہ کا 150 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا انکشاف ہوا۔ مولویوں کا یہ گروہ بچوں کے ساتھ زیادتی کر کے، ان کی ویڈیو بنا کر بلیک میل کرتا اور منہ بند رکھنے کے لئے ان سے قرآن پاک پر حلف لیتا۔

2021 میں لاہور ہی کے ایک مدرسے کے مولوی کا بچے کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو سامنے آئی۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ وہ مولوی مسلسل ایک سال سے معصوم بچے کے ساتھ زیادتی کرتا رہا۔

پاکستان میں تقریباً 36000 سے زائد رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مدارس ہیں، جہاں تقریباً 20 لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے اکثریت ان بچوں کی ہے جن کا تعلق مالی طور پر کمزور خاندانوں سے ہوتا ہے۔

اوپر بیان کیے گئے واقعات تو محض چند چیدہ چیدہ واقعات ہیں۔ شاید ایسے واقعات تو روز کا معمول ہیں جن میں سے چند واقعات ہی رپورٹ ہو پاتے ہیں جبکہ کئی واقعات تو اثرورسوخ اور سماجی دباؤ کے سبب منظرعام پر آ ہی نہیں سکتے۔

مفتی صاحب لیکن ان افسوسناک و شرمناک واقعات اور اعداد و شمار پر مجھے کتنی ہی دیر لیپ ٹاپ کی سکرین کے سامنے ضائع کرنے کے بعد بھی آپ کا کوئی ٹویٹ یا بیان ڈھونڈنے میں بری طرح ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ مفتی صاحب آپ نے ان واقعات سے متعلق کبھی نہیں پوچھا کہ ہم کہاں تک نیچے گریں گے؟

مفتی صاحب کے مس یونیورس کے مقابلے میں حصے لینے والی خواتین پر اگر اعتراض کو ایک لمحے کے لئے ٹھیک تسلیم کرنے کی کوشش کریں تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر مس یونیورس معترض ہے تو مسٹر پاکستان کے لئے کیا احکامات ہیں، اعتراض مسٹر پاکستان پر کیوں نہیں داغے جا رہے؟ اعتراضات وہاں کیوں نہیں جہاں نیم برہنہ مردوں کی تصاویر تشہیری مہم میں جگہ جگہ آویزاں نظر آتی ہیں۔ ایک مرد اداکار کی بغیر شرٹ کی تصویر کے نیچے کمنٹ باکس میں خوبصورتی پر تعریفی کلمات کی باڑ آ جاتی ہے، وہیں ایک پاکستانی خاتون کی بین الاقوامی مقابلے میں اپنے ملک کی نمائندگی پر اعتراض کس قدر بجا سمجھا جائے؟

پاکستان میں ہوٹلوں میں دھوکے سے گدھے کا گوشت کھلایا جاتا ہے۔ ہم بے ایمانی میں عالمگیر شہرت پانے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر چیز نہایت ایمانداری سے ملاوٹ شدہ دستیاب ہوتی ہے۔ دودھ میں پانی ملانے کی تراکیب میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ کرپشن اس طرح جڑوں تک پھیلی ہوئی ہے کہ کوئی بھی جائز کام رشوت کے بغیر ممکن ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔

میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے اتنے بڑے کارنامے ہیں، لیکن مفتی صاحب کی اعتراض ڈھونڈتی نظریں محض مس یونیورس کے مقابلے پر ہی اٹکی ہیں۔

یہ سطور تحریر کرتے ہوئے میری یادداشت میں 2021 کا ایک واقعہ گھوم رہا ہے جب پنجاب کے کسی علاقے سے قبر سے ایک خاتون کی لاش نکال کر اسے جنسی تسکین کا ذریعہ بنایا گیا تھا۔ مفتی صاحب، ہمیں بتائیں کہ ہم مزید کتنا نیچے گریں گے؟

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں