اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حوالے سے اپنے بیان میں مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں جو صلح سے بنا ہے وہاں ضرورت کے مطابق نئی عبادت گاہ بنا سکتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے مزید کہا کہ لیکن حکومت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے خرچ پر مندر تعمیر کرے خاص طور پر ایسی جگہ جہاں ہندو برادری کی آبادی بہت کم ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ نہ جانے اس نازک وقت میں کیوں ایسے شاخسانے کھڑے کیے جاتے ہیں جن سے انتشار پیدا ہونے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
جہاں ہندو برادری کی آبادی بہت کم ہو اس لئے اسلام آباد میں حکومت کے لئے ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے خرچ پر مندر تعمیر کرائے- نہ جانے اس نازک وقت میں کیوں ایسے شاخسانے کھڑے کئے جاتے ہیں جن سے انتشار پیدا ہونے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہے
— Muhammad Taqi Usmani (@muftitaqiusmani) July 1, 2020
اس سے قبل جامعہ اشرفیہ کے دارالافتاء لاہور کے مفتی ضیا الدین نے کی جانب سے بھی ایک فتویٰ جا ری کیا گیا، جس میں لکھا گیا ہے کہ دارالاسلام یعنی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی پہلے سے موجود عبادت گاہوں کو باقی رکھنا اور اسی طرح ان کی مرمت کرنا درست ہے تاکہ غیر مسلم اپنی حدود میں رہتے ہوئے پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر سکیں البتہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو نئی عبادت گاہیں بنانے یا پہلے سے ویران شدہ عبادت گاہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دینا شرعاً جائز نہیں کیونکہ یہ گناہ میں تعاون ہے جو ناجائز ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے وفاقی دارالحکومت میں پہلے مندر کی تعمیر کے لیے 10 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری دی تھی، یہ منظوری وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری کی وزیراعظم سے ملاقات میں گرانٹ کے لیے کی گئی درخواست کے بعد سامنے آئی تھی۔