شیخوپورہ کے رہائشیوں کی احمدی عبادت گاہ کی حفاظت کے لیے پولیس کو درخواست 

درخواست میں کہا گیا ہے کہ علاقہ مکینوں کو جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کے فن تعمیر کی ساخت یا پہلوؤں پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ ہی ان کے مذہبی جذبات کو مجروح نہیں کرتی ہے۔ اگر اس کو تباہ کیا جائے گا تو اس سے ان کو تکلیف پہنچے گی۔

شیخوپورہ کے رہائشیوں کی احمدی عبادت گاہ کی حفاظت کے لیے پولیس کو درخواست 

شیخوپورہ  میں کثیر المذاہب رہائشیوں نے جماعت احمدیہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے  مقامی پولیس کے پاس ایک درخواست جمع کرائی ہے تاکہ مقامی احمدیہ کمیونٹی کی قدیم عبادت گاہ کی حفاظت کی جائے۔

تفصیلات کے مطابق شیخوپورہ کے ایک محلے کے 54 رہائشیوں نے مقامی احمدیہ کمیونٹی کی 1960 کی دہائی میں تعمیر کی گئی کی قدیم عبادت گاہ کی حفاظت کے لیے پولیس سٹیشن میں درخواست جمع کروا دی۔

فضل کریم نے درخواست ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) کو شیخوپورہ کے نارنگ منڈی تھانے میں 100 روپے کے سٹامپ پیپر پر دائر کی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ مختلف مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے علاقے کے باشندے اپنے گاؤں میں امن سے رہ رہے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ احمدیہ کمیونٹی کی مقامی عبادت گاہ  ' بیت الذکر' کو  1984 کے آرڈیننس سے بہت پہلے  1963 میں تعمیر کیا گیا تھا۔

درخواست پر 54 رہائشیوں کے دستخط ہیں۔ دستخط کرنے والے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انہیں اس کے فن تعمیر کی ساخت یا پہلوؤں پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ ہی مینار اور محراب سمیت خصوصیات ان کے مذہبی جذبات کو مجروح نہیں کرتی ہیں۔اس کے بجائے، اگر ان کو تباہ کیا جائے گا تو اس سے ان کو تکلیف پہنچے گی۔

درخواست میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کا اردو ترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے جس میں 1984 کے توہین رسالت کے قانون سے پہلے کی تعمیرات اور خصوصیات کو محفوظ تصور کیا گیا تھا۔

یہ پٹیشن ایسے وقت سامنے آئی ہے جب احمدیہ کمیونٹی کو انتہا پسند عناصر کے تشدد کی تازہ لہر کا سامنا ہے جو پولیس کی حفاظت اور نگرانی میں احمدیہ عبادت گاہوں پر حملے کر رہے ہیں اور ان عمارات کے میناروں اور محرابوں کو مسمار کر رہے ہیں۔