سپریم کورٹ آف انڈیا نے گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے دوران گینگ ریپ کا شکار ہونے والی خاتون بلقیس یعقوب رسول بانو کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے انہیں سرکاری ملازمت کے علاوہ 50 لاکھ روپے اور پسند کی جگہ پر گھر فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔
انڈین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رانجان گوگی نے گجرات حکومت کو دو ہفتے کی مہلت میں یہ تمام سہولیات متاثرہ خاتون کو فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
یاد رہے کہ 2002ء میں ہونے والے گجرات فسادات بھارتی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی اس وقت ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔
سپریم کورٹ نے مقدمہ کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بلقیس یعقوب نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے خاندان کی بربادی کے مناظر دیکھے۔ بلوائیوں نے خاتون کی نوزائیدہ بچی کو دیوار سے دے مارا اور اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان سے گینگ ریپ بھی کیا جب کہ اس وقت وہ حاملہ تھیں۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا، تین مارچ 2002ء کو مشتعل ہجوم نے متاثرہ خاتون کے گھر کے سات افراد کو قتل کر دیا تھا۔
یہ واضح رہے کہ گجرات فسادات میں ملوث ہونے کے باعث نریندر مودی کے امریکا داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، یہ پابندی اس وقت ختم ہوئی جب انہوں نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔
چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں کہا، اس وقت ماضی کا جائرہ لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے تاہم متاثرین کو انصاف فراہم کرنا نہایت اہم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عاصمہ نے بال ٹھاکرے کے ساتھ ملاقات کے بعد جو رپورٹ لکھی، اس میں بھارت کی دھجیاں بکھیر دیں
عدالت عظمیٰ نے کہا، آج کی دنیا میں پیسہ ہی ہر قسم کے درد کی دوا ہے، ہم نہیں جانتے کہ یہ پیسہ بلقیس یعقوب کے درد کی دوا بنے گا یا نہیں لیکن اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ بعدازاں چیف جسٹس رانجان گوگی نے بلقیس یعقوب سے کہا، آپ وہ معاوضہ طلب کریں جو آپ چاہتی ہیں، ہم ویسا ہی حکم جاری کر دیں گے۔
مقدمہ کی سماعت کے دوران حکومت گجرات کے وکیل نے مداخلت کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا، آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ مقدمہ کتنے عرصے سے زیرالتوا ہے؟
سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو مقدمے میں نامزد تین پولیس اہلکاروں کی پنشن روکنے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔
واضح رہے کہ بمبئی ہائی کورٹ نے بلقیس یعقوب گینگ ریپ کیس میں 11 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
گجرات میں 2002 میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں ایک ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
اس وقت نریندر مودی ریاست کے وزیراعلیٰ تھے اور ان پر مسلمانوں کے قتل عام کے علاوہ فسادات نہ رکوانے کے الزامات بھی عائد ہوئے۔