سیاستدانوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جھوٹ بہت بولتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ روایتی سیاستدانوں سے مختلف ہیں اور سیاست میں تبدیلی لے کر آئیں گے لیکن وہ خواب تو کب کے چکنا چور ہوئے۔ لیکن انہوں نے اپنی کتاب میں اپنی بچپن کی ایک شرارت کے بارے میں لکھا ہے جب انہوں نے قرآن پاک سے متعلق جھوٹ بولا اور معصومیت میں پکڑے بھی گئے۔
وزیر اعظم عمران خان اپنی خود نوشت 'میں اور میرا پاکستان' میں لکھتے ہیں کہ انکا روحانیت سے متعلق پہلا تجربہ 14 سال کی عمر میں ہوا۔ وہ لکھتے ہیں کہ میری والدہ نے مجھے ناظرہ قرآن کی تعلیم کے لئے قاری صاحب کے پاس بھجوا دیا۔ مگر انکا قرآن مجید پڑھنے میں دل نہیں لگتا تھا۔ کیوں کہ وہ اپنے کزنوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا چاہتے تھے۔ یہ مسلسل صورتحال تھی جس سے قاری صاحب اور عمران دونوں تنگ تھے۔ قاری صاحب عمران خان سے ایک سال میں ہی مایوس ہوگئے۔ ایک دن دونوں نے ڈیل کر لی اور اس کے تحت طے ہوا کہ وہ جا کر انکے گھر بتا دیں گے کہ عمران خان نے ناظرہ قرآن کی تعلیم مکمل کر لی ہے۔ ایسا ہی کیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک دن انکی والدہ سے ملنے ساہیوال سے ایک خاتون روحانی پیشوا پہلی اور آخری بار انکے گھر آئیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ وہ چادر اوڑھے تھیں اور اپنی تین چار ماننے والیوں کے ساتھ فرش پر بیٹھی تھیں۔ نہ عمران خان انکو دیکھ سکے نہ ہی انہوں نے عمران کی طرف دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میری والدہ بہت پر جوش تھیں وہ انکو اس روحانی شخصیت کے پاس لائیں اور کہا کہ میرے بیٹے کے لئے دعا کیجیے اور رہنمائی بھی۔ کچھ دیر وہ خاموش رہیں اور پھر انہوں نے کہا کہ اس نے قرآن کی تعلیم مکمل نہیں کی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ انکا سانس خشک ہوگیا۔ وہ اس انکشاف کے لئے تیار نہ تھے۔ والدہ انکا فق چہرہ دیکھ کر سمجھ گئیں کہ انکے بیٹے سے متعلق بتائی جانے والی یہ بات درست ہے۔ والدہ غصے ہوتیں لیکن بچت اس لئے ہوگئی کہ ان بزرگ صاحبہ نے عمران خان کی شہرت اور والدہ کا نام ملک کے گھر گھر پہنچانے میں بیٹے کے کردار کی پیش گوئی کر دی۔
یہ تو ایک روحانی شخصیت تھیں جنہوں نے بغیر دیکھے ہی اندازہ لگا لیا لیکن سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب اب بھی دل کے بہت صاف ہیں اور کبھی کبھی سیاستدانوں کی طرح جھوٹ بول بھی دیں تو معصومیت میں خود ہی پکڑے بھی جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’پینتی پنکچر‘ والا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔