پراجیکٹ عمران خان جس کے بارے کہا جاتا تھا کہ یہ دس سالہ ہے جو 2028ءتک چلے گا لیکن یہ منصوبہ اس بُری طرح سے ناکامی سے دوچار ہوا کہ ساڑھے تین سال میں ہی اپنے منطقی انجام تک پہنچ گیا لیکن جاتے جاتے ریاستی اداروں اور پارلیمانی اقدار کو بہت بڑا نقصان پہنچا گیا۔
جس طرح سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے کھلم کھلا آئین کی خلاف ورزی کی، تحریک عدم اعتماد کے آئینی مرحلے کو مکمل کرنے سے انکار کیا اور ڈپٹی سپیکر کی ایک غیر آئینی رولنگ کے ذریعے آئین کو سبوتاژ کرنے کے بعد اسمبلی برخواست کروا دی گئی، یہ ہماری مختصر سی جمہوری تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
آئین کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی پر سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑا جبکہ پیپلز پارٹی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی اپنی پٹیشنز اُسی روز سپریم کورٹ میں جمع کروا دیں۔
تقریباً پانچ روز تک ازخود نوٹس کی سماعت کے بعد پانچ رُکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی اسمبلی کو بھی بحال کر دیا گیا اور سپیکر کو پابند کیا گیا کہ 9 اپریل کو اسمبلی کا اجلاس بلا کر تحریک عدم اعتماد پر کارروائی مکمل کی جائے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق 9 اپریل کو اسمبلی کا اجلاس تو بلایا گیا لیکن سپیکر تمام دن اجلاس میں لمبی لمبی تقریریں کرواتے رہے جبکہ جو اصل ایجنڈا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا تھا اس پر عمل کرنے میں بالکل ناکام رہے۔
یہاں سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ دیکھنے میں آئی کہ سپیکر جسے کسٹوڈین آف دی ہائوس سمجھا جاتا ہے اور جس نے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہوتا ہے، وہ سپیکر اسد قیصر اپنے حلف کا پاس رکھنے میں بری طرح ناکام رہا اور سابق وزیراعظم عمران خان کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتا رہا۔
رات بارہ بجنے سے چند منٹ قبل سپیکر ایوان میں تشریف لائے اور اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے اختیارات پینل آف سپیکر کے رکن سردار ایاز صادق کو سونپ کر تاریخ میں اپنا نام ایک ایسے سپیکر کے طور پر لکھوا کر رخصت ہوگئے جس نے سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کیا اور جو آئین کے تحت اٹھائے گئے اپنے حلف سے وفاداری کی بجائے اپنے لیڈر عمران خان کا ذاتی ملازم ثابت ہوا۔
تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں بالاخر عمران خان کو رُخصت تو ہونا پڑا لیکن جس طرح کا فاؤل پلے عمران خان کی طرف سے دیکھنے میں آیا، اس نے ان کی جمہوریت پسندی، آئین کی پاسداری اور شاید حب الوطنی پر بھی بہت بڑے سوال کھڑے کر دئیے۔ عمران خان نے ثابت کر دیا ہے کہ اقتدار سے چمٹے رہنے کے لئے عمران خان کچھ بھی کر سکتے ہیں حتیٰ کہ آئین بھی توڑ سکتے ہیں۔
پراجیکٹ کے نتیجے میں عمران خان کو جیسے بھی لایا گیا، کیسے اس کے خالی غبارے میں ہوا بھری گئی، کیسے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ہاتھ پائوں باندھ کر عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو انتخابی میدان میں اتارا گیا۔ اس کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے تو آر ٹی ایس بٹھا کر عمران خان کو سیٹیں دلائی گئیں اس کے باوجود سادہ اکثریت بھی حاصل نہ ہو سکی تو اتحادیوں اور آزاد اراکین کا بندوبست کرکے چند ووٹوں کی اکثریت سے حکومت بنوا دی گئی۔
اس کے بعد میڈیا کو کہلوایا گیا کہ ایک سال تک حکومت کے بارے مثبت رپورٹنگ کی جائے۔ اس مثبت رپورٹنگ کی آڑ میں میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسرشپ نافذ کر دی گئی۔ تمام اداروں کی جانب سے پراجیکٹ عمران خان کے تحت قائم شدہ عمران حکومت کو جس طرح کا تعاون فراہم کیا گیا ویسا تعاون پہلے والی کسی حکومت کو کبھی حاصل نہیں رہا تھا۔
ان تمام تر انتظامات اور تعاون کے باوجود آج حقیقت یہ ہے کہ عمران حکومت ہر شعبے میں نہایت بری طرح ناکام ہو کر اور پراجیکٹ کے معماروں کی امیدوں پر پانی پھیر کر ساڑھے تین سال میں ہی سمیٹ کر گھر جا چکی ہے۔ عمران حکومت کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ساڑھے تین سال بھرپور اقتدار کے مزے لینے کے بعد بھی اس کے پاس اپنی کارکردگی کے نام پر بتانے کے لیے کوئی ایک بھی کام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان آج بھی اپنے مخالفین کو وہی چور ڈاکو کہنے پر مجبور ہیں اور عوام کو امریکی سازش اور خودداری کی ایک اور لال بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔
اقتدار میں آنے کے بعد پہلے روز سے عمران خان نے بجائے اپنے وعدوں اور منشور پر عمل کرنے کے سیاسی انتقام کو اپنی پہلی ترجیح بنائے رکھا۔ چُن چُن کر سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا گیا لیکن کچھ ثابت نہ کر سکے۔ نیب، ایف آئی اے اور دوسرے اداروں کو کھل کر سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا۔ عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر نے احتساب کے نام پر بے دریغ پیسہ ضائع کیا۔ گھنٹوں پر محیط پریس کانفرنسز کرکے اپوزیشن رہنمائوں کی کردار کشی کی گئی۔ چیئرمین نیب کو ایک ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرکے اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف بے بنیاد کیسز بنائے گئے جن کا کبھی کوئی نتیجہ نہ نکل سکا البتہ اپنے انتقام کی آگ ضرور بجھائی گئی۔
احتساب کے عمل میں بدترین ناکامی پر مشیر احتساب کو استعفیٰ بھی دینا پڑا۔ ساڑھے تین سال احتساب کے نام پر ہونے والے ڈرامے کی بری طرح ناکامی کے باوجود آج بھی عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو کہے تو سوال اب ان سے بنتا ہے کہ تمام تر طاقت، اختیار اور اقتدار کے باوجود کچھ ثابت نہ کر سکے تو اب تمہارے الزامات پر اعتبار کیوں کیا جائے؟ عوام اب یقینی طور پر یہ چورن نہیں خریدیں گے اور عمران خان کے انہی گھسے پٹے الزامات کے جواب میں اس کی کارکردگی پوچھیں گے کہ اس نے ساڑھے تین سال میں کیا کام کیا ہے؟
پراجیکٹ عمران خان خارجی محاذ پر بھی بُری طرح ناکام رہا۔ مودی حکومت نے پاکستان کی شہ رگ پر وار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنا لیا جبکہ ہم ہندوستان کی اس حرکت پر سلامتی کونسل میں ایک قرارداد تک نہ لا سکے۔
امریکی دورے سے واپسی پر عمران خان امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات پر اتنے نازاں تھے کہ واپسی پر اپنا ایک بڑا استقبال کروایا اور کہا کہ میں ایک اور ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ ورلڈ کپ دراصل کشمیر پر سمجھوتے کا ورلڈ کپ تھا جس میں ہمیں زبان بند رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ ہمارا احتجاج جمعہ والے دن آدھا گھنٹہ کھڑا رہنے تک محدود رہا جبکہ ہمارے برادر اسلامی ملک مودی کو اپنے ملکوں میں دعوت دے کر بلاتے رہے اور اعزازات سے نوازتے رہے۔
ہماری ناکام خارجہ پالیسی کے نتیجےمیں ہمارے تمام دوست ممالک نے ایک ایک کرکے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ سعودی عرب اور چین اس کی ایک بہت بڑی مثال ہیں۔ اسلامی اُمّہ کا لیڈر بننے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان نے ہر مشکل وقت میں کام آنے والے سعودی عرب کو بھی ناراض کردیا۔
وہی سعودی عرب جس نے امریکہ جانے کے لیے عمران خان کو اپنا شاہی طیارہ فراہم کیا۔ اُسی سعودی عرب نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ سے واپسی پر محو پرواز طیارے کو واپس بُلا کر اپنا طیارہ واپس لے کر ہمارے مسلم اُمّہ کے لیڈر کو کمرشل طیارے کی ٹکٹیں لے کر واپس آنے پر مجبور کردیا۔ ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی والے ملک چین کو ہم نے سی پیک جیسا پراجیکٹ بند کرکے ناراض کر دیا۔ ہمارے وزیر خارجہ کا زیادہ تر وقت بجائے خارجہ امور پر توجہ دینے کے ملتان میں گزرتا رہا۔ پاکستان اس وقت جس شدید قسم کی عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ ایسا ماضی میں کبھی بُرے سے بُرے حالات میں بھی نہیں ہوا۔
معاشی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو عمران حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کے اپنے الفاظ ہیں کہ ہمارے پاس شروع سے ہی کوئی معاشی پالیسی موجود ہی نہیں تھی۔ حکومت کے خاتمے پر اگرچہ حکومتی ترجمان یہ دعویٰ کرتے نظر آئے کہ حکومت کے خاتمے پر بائیس ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں لیکن اس دعویٰ کی قلعی بھی خود عمران حکومت کے ہی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کھول دی کہ زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم بائیس ارب ڈالر نہیں بلکہ ساڑھے گیارہ ارب ڈالر ہے اور اس میں سے بھی اگر چین، قطر اور دوسرے ممالک کے رکھے گئے پیسے نکال دئیے جائیں تو خزانہ خالی نظر آئے گا۔
عمران خان کے شو بوائے اسد عمر وزارت خزانہ میں صرف چھ ماہ ہی نکال سکے۔ ساڑھے تین سالوں میں چار وزیر خزانہ بدلے گئے جن میں سے حفیظ شیخ اور شوکت ترین پیپلز پارٹی کے دور میں بھی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔
ان تمام تبدیلیوں کے باوجود ساڑھے تین سالوں میں ملکی معیشت کومے سے باہر نہیں آ سکی۔ حکومت کے خاتمے کے وقت ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح 191 پر پہنچ چکا تھا۔ گروتھ ریٹ کورونا کی وبا شروع ہونے سے پہلے ہی تاریخ میں پہلی مرتبہ منفی میں جا چکا تھا۔ ساڑھے تین سالوں میں بیرونی قرضوں کا حجم پچیس ہزار ارب روپے سے بڑھ کر پینتالیس ہزار ارب روپے ہو چکا ہے جبکہ اس کے بدلے میں کسی پراجیکٹ پر ایک اینٹ بھی لگی نظر نہیں آتی۔
صنعت کا پہیہ رک چکا ہے۔ لوڈشیڈنگ عروج پر ہے۔ سارے معاشی اعشاریے بدحالی کی نوید سنا رہے ہیں۔ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے پس کر رہ گئے ہیں لیکن عمران خان کا اپنی حکومت ختم ہونے پر کیا جانے والا واویلا ہے کہ رکنے میں نہیں آ رہا۔
قسط اوّل: پراجیکٹ عمران خان، تحریر: آفتاب احمد گورائیہ