سائفر کیس کے گواہ سابق سفیر اسد مجید کا کہنا ہے کہ سائفر ٹیلی گرام میں ساز ش اور تھریٹ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ سائفر کو سازش قرار دینے کا فیصلہ اس وقت کی سیاسی قیادت کا تھا۔
گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران امریکا میں تعینات پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا۔
اسد مجید نے اپنے بیان میں عدالت کو بتایا کہ جنوری 2019 سے مارچ 2022 تک امریکا میں پاکستان کا سفیر تھا۔ 7 مارچ 2022 کو امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو کو ورکنگ لنچ پر مدعو کیا تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ پہلے سے طے شدہ ملاقات تھی جس کی میزبانی پاکستان ہاؤس میں کی گئی۔
سابق سفیر نے بتایا کہ ملاقات میں کمیونیکیشن کا سائفر ٹیلی گرام سیکرٹری خارجہ کو بھجوایا گیا۔ پاکستان ہاؤس میں ملاقات میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن نوید صفدر بخاری اور ڈیفنس اتاشی برگیڈئیر نعمان اعوان اور سیاسی کونسلر قاسم محی الدین بھی شامل تھے بھی موجود تھے۔ ملاقات میں دونوں سائیڈز کو معلوم تھا میٹنگ کے منٹس لیے جا رہے ہیں۔
اسد مجید نے مزید کہا کہ سائفر ٹیلی گرام میں ملاقات میں ہونے والی گفتگو کو اسلام آباد رپورٹ کیا گیا۔ خفیہ سائفر ٹیلی گرام میں ’خطرہ‘ یا ’ سازش‘ کے الفاظ کا حوالہ نہیں تھا۔ سائفر ٹیلی گرام فارن سیکرٹری کو بھیجا گیا انہوں نے تمام متعلقہ افراد سے شیئر کیا۔ سائفر کو سازش قرار دینے کا فیصلہ اس وقت کی سیاسی قیادت کا تھا۔
اسد مجید کے مطابق مجھے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں بھی بلایا گیا جس میں ڈی مارش ایشو کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ میں نے ڈی مارش ایشو کرنے کی تجویز دی تھی۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں فیصلہ ہوا کہ سائفر کوئی سازش نہیں تھی ۔ وزارت خارجہ نے بھی سائفر کو سازش قرار نہیں دیا تھا۔ سائفر ایپیسوڈ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات شدید متاثر ہوئے۔ سائفر کو سازش قرار دینا پاک امریکہ تعلقات کیلئے سیٹ بیک تھا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
چند روز قبل اعظم خان نے بھی سائفر کیس میں قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر اہم بیان ریکارڈ کروایا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے بطور پرنسپل سیکریٹری ٹو وزیر اعظم سروس کی ہے۔ فارن سیکرٹری نے کال کر کے سائفر ٹیلی گرام کا بتایا لیکن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مجھ سے پہلے وزیر اعظم سے سائفر پر بات کر چکے تھے۔
اعظم خان کے مطابق مارچ میں میرے سٹاف نے مجھے سائفر کی کاپی فراہم کی جو میں اگلے دن وزیر اعظم کے پاس لے کر گیا اور انہوں نے مجھ سے کاپی لے کر اپنے پاس رکھ لی۔ بعد میں وزیر اعظم نے بتایا کہ سائفر کی کاپی گم ہو گئی ہے۔
سابق پرنسپل سیکریٹری نے کہا تھا کہ کاپی میں ہمارے سفیر کی یو ایس مشن سے ملاقاتوں کا ذکر تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ امریکی حکام نے سائفر بھیج کر اندرونی معاملات میں مداخلت کی۔ وزیر اعظم نے کہا لگتا ہے یہ میسج اندرونی ایکٹرز کیلیے ہے کہ عدم اعتماد لائی جائے لیکن میں نے مشورہ دیا تھا کہ سائفر کو عوام میں بیان نہ کریں۔
اعظم خان نے بتایا تھا کہ سائفر کی ماسٹر کاپی وزارت خارجہ کے پاس موجود ہے، سائفر کے حوالے سے بنی گالہ میں میٹنگ ہوئی تھی جس میں وزیر خارجہ اور سیکریٹری خارجہ موجود تھے۔میٹنگ میں سائفر کو پڑھا گیا تھا اور اسی میں سائفر کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ان کے مطابق کابینہ اجلاس میں وزارت خارجہ حکام نے سائفر پڑھ کر سنایا تھا۔ اجلاس میں سائفر کا معاملہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے سامنے رکھنے کا فیصلہ ہوا تھا جبکہ کمیٹی میٹنگ میں ڈی مارش جاری کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ میرے چارج چھوڑنے تک سائفر کی کاپی واپس نہیں بھجوائی گئی تھی۔ روایت کے مطابق سائفر کاپی واپس وزارت خارجہ کو بھجوائی جاتی ہے لیکن اس معاملے میں ایسے نہیں کیا گیا تھا۔ کاپی واپس نہ بھجوانے پر پی ایم، ایم ایس اور سٹاف کو متعدد بار آگاہ کیا۔