بازاری کھانوں کا چسکا آبادی کے بڑے حصے کو بیمار کر رہا ہے

ہوٹلوں کا گوشت ایک ہی دفعہ خرید کر فریز کر لیا جاتا ہے لیکن فریزر بار بار کھلنے کی وجہ سے ان میں جراثیم پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی گوشت ایک ایسی چیز ہے جس میں سب چیزوں سے زیادہ اور جلدی جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہی گوشت جب کھایا جاتا ہے تو اس سے پیٹ اور معدہ کی بہت سی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔

بازاری کھانوں کا چسکا آبادی کے بڑے حصے کو بیمار کر رہا ہے

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے بازاری یعنی بازار والا۔ جب کوئی غلط قسم کا لہجہ استعمال کرتا ہے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ بازاری لہجہ استعمال نہ کرو، تم میں بازاری پن جھلکتا ہے۔ یا جب کوئی ہوٹل میں کام کرنے والا بچہ غلط حرکات کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ بازار میں پلا بڑا ہے اس لئے اس قسم کی حرکتیں یا باتیں کرتا ہے۔ یعنی لفظ بازار سے بازاری نکلا ہے جو کہ منفی طور پر ہی استعمال ہوتا ہے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ بازاری کھانا بھی بہت قسم کی خرابیوں سے مزین ہوگا جو انسانی صحت کے لئے مضر صحت ہوگا۔ مگر باہر کا ہر کھانا صحت کے اصولوں کے منافی نہیں ہو سکتا۔ ان میں بہت سے ہوٹلوں کا کھانا بہترین بھی ہوگا۔ وہ صفائی ستھرائی کا بہترین انتظام کرتے ہوں گے مگر اکثریتی بازاری کھانے ٹھیک نہیں ہوتے مگر پھر بھی ہمارے لوگ بازاری کھانوں سے باز نہیں آتے۔ جس طرح ہمیں کچھ روز قبل ایک دوست نے پشاورمیں بازاری کھانے کی دعوت دی جس کو رد کرنا ہمارے بس میں نہیں تھا کیونکہ ہم بھی اس ماحول کا حصہ ہیں جہاں لوگ بازاری کھانے شوق سے کھاتے ہیں۔

وہاں باتیں تو بہت ہوئیں جس پر پھر کبھی گفتگو ہو گی مگر آج ہمارا موڈ باہر کے کھانوں پر لکھنے کو ہے جس پر ہماری قوم مر مٹ گئی ہے اور لوگ روایتی کھانوں سے دور ہو گئے ہیں۔ ایک گھنٹے کی بیٹھک میں ہم نے دروازے پر مامور بندے کو دروزاہ بند کرتے ہوئے نہیں دیکھا اور تھوڑی دیر کے بعد ساری میزیں فل ہو گئی تھیں جس کے بعد چار و ناچار دوسرے لوگوں کو کسی دوسرے ہوٹل جانا پڑ جاتا تھا۔ یعنی کھانا ہر حال میں باہر ہی نوش کرنا تھا۔ ہمارے ایک دوست نے صحافت کے ساتھ ساتھ روایتی کھانے بنوں کا پینڈہ پشاور میں شروع کیا تھا مگر عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس لئے وہ پینڈہ چھوڑ کر دوبارہ سے صحافت کے میدان میں کود گیا۔ اس لئے اب وہ صحافت ہی کر رہے ہیں۔

ایک دور تھا جب لوگ گھروں میں کھانے کو فوقیت دیتے تھے۔ آج بھی بہت سے خاندانوں میں بڑے یا جو صحت کے شعبہ سے وابستہ ہیں وہ باہر بازاری کھانوں کو توجہ نہیں دیتے اور اسے مضر صحت قرار دیتے ہیں مگر ہماری نئی نسل بازاری کھانوں پر اتنی فدا ہے کہ وہ ہر ہفتے ایک دن لازمی بڑے ہوٹلوں میں کھانے کو ترجیح دیتی ہے۔ البتہ ملازمت پیشہ لوگوں کی مجبوری سمجھیں کہ انہیں ہوٹلوں میں کھانا پڑتا ہے مگر آج صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اب گھر سے باہر کھانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اگرچہ ایک وجہ سلسلہ روزگار یا تعلیم بڑے شہروں میں لوگوں کی آمد نے بھی اس میں اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح اگر گھر کے سربراہ اور خاتون خانہ دونوں ملازمت پیشہ ہیں وہ بھی اکثر باہر سے کھانا کھائیں گے یا پیک کروا کر گھر لانے میں سہولت رکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی کو اس طرح کی مجبوری نہ بھی ہو تو وہ بھی کبھی کبھار گھر سے باہر کھانا ضرور کھاتے ہیں۔

اب تو ملک کے بڑے بڑے شہروں میں فوڈ سٹریٹس نے بھی گھر سے باہر کھانے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور بڑے شہروں میں تو صبح کا ناشتہ ہو یا رات کا کھانا جیسے چکن روسٹ اور کڑاہی گوشت کی دکانوں پر رونقیں لگ جاتی ہیں اور ان کو کھاتے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ سارا شہر گھروں سے باہر کھانے کو نکل آیا ہو۔ آج کی نئی نسل گھر کے کھانوں کی نسبت بازاری کھانوں کو بہت ترجیح دیتی ہے جس میں اب خواتین بھی شامل ہو گئی ہیں۔ باہر کے کھانوں میں مرچ مصالحوں کی زیادتی کی وجہ سے کھانے کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ شاید یہی چیز خواتین اور حضرات کو ان کھانوں پر اکساتی ہے۔ باہر سے کھانا کھانے کی کئی وجو ہات ہوتی ہیں۔

ایک وجہ گھریلو خواتین کی عدم توجہ بھی ہو سکتی ہے۔ کچھ خواتین سستی کی وجہ سے موسم گرما میں باورچی خانے میں جانے سے گھبراتی ہیں اور بازاری کھانوں کو ترجیح دیتی ہیں جس کے لئے بڑے گھرانوں میں باقاعدہ خانساماں رکھے جاتے ہیں یا پھر باہر سے کھانا منگوایا جاتا ہے۔ ایک وجہ روزگار کے سلسلے میں رہنا بھی ہے۔ اگر کوئی مخص کسی دوسرے شہر میں رہ رہا ہے تو اسے مجبوراً بازار سے کھانا کھانا پڑے گا۔ تاجر حضرات بھی وقت بچانے کے لئے بازاری کھانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے نا صرف ان کی ضرورت پوری ہوتی ہے بلکہ کھانے کا چسکا بھی پورا ہوتا ہے۔ بعض لوگ دفاتر میں گھروں سے کھانا لے جانا مناسب نہیں سمجھتے اور بازار سے ہی گرم گرم کھانا کھا لیتے ہیں۔ بعض لوگ بازاری کھانے کے عادی ہوتے ہیں۔ بھلے گھر سے وہ کھانا کھا کر ہی نکلیں لیکن بازار کے کھانے کی خوشبو سونگھتے ہی وہ دوبارہ کھانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ بہت سے طالب علم بازار سے ملنے والی چیزوں کو کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

موجودہ دور میں ہمارے ہاں غیر ملکی کھانے بہت زیادہ مقبول ہو رہے ہیں۔ چائنیز، امریکن اور برٹش کھانے پاکستانی عوام میں بہت پسند کیے جا رہے ہیں اور پاکستانی قوم کو گھر سے باہر کھانے پر مجبور کرنے میں ان کا بہت عمل دخل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بازاری کھانا چاہے ملکی ہو یا غیر ملکی، مہنگا ضرور ہوتا ہے۔ غیر ملکی کھانا کھانے والا شعوری یا لاشعوری طور پر اپنا سٹیٹس شو کرتا ہے جس سے معاشرے میں بھیڑ چال کی فضا پیدا ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ایک دوسرے کو دکھانے کے لئے بھی باہر لازمی کھانا کھایا جاتا ہے۔ آپ نے عموماً دیکھا ہوگا کہ ہوٹلوں میں اکثر لوگ کھانے سے زیادہ سیلفیاں لینے، کھانوں کی تصاویر اور ویڈیوز بنانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ کھانا کھانے کے لئے نہیں آتے، صرف تصاویر اور ویڈیوز بنانے کے لئے آتے ہیں تاکہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے پیٹ بھر سکیں اور وٹس اپ اسٹیٹس سے لوگوں کو باخبر کر سکیں کہ ہم نے باہر کھانا کھایا ہے۔ انہیں شاید ہی مہنگے داموں کھانوں سے کوئی مطلب ہو۔

بازاری کھانوں کا ایک اہم جزو گوشت ہے اور گوشت اکثر لوگوں کی کمزوری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بکرے کے علاوہ مرغی کے گوشت کے نرخ آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں۔ بازاری کھانے کے کچھ فائدے بھی ہیں۔ وقت کی بچت ہوتی ہے۔ زبان کا چسکا پورا ہو جاتا ہے۔ وقت پر گرم گرم کھانا مہیا ہو جاتا ہے۔ ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ بازاری کھانوں کے لامحدود نقصانات بھی ہیں۔ بسیار خوری صحت کو برباد کر دیتی ہے۔ زبان کے ذائقے کے لئے ہم بہت سی چیزیں ضرورت سے زیادہ کھا لیتے ہیں اور پھر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حالت مجبوری میں اگر ایک آدھ بار باہر سے کھانا کھا لیا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن اس مجبوری کو ضرورت بنا لیا جائے تو یہ انتہائی برا ثابت ہوتا ہے۔

بازار میں دستیاب کھانوں سے تین قسم کی بیماریاں ہو سکتی ہیں جن کے بارے میں بھی ماہرین کی رائے ہے کہ اس سے ٹائیفائیڈ بخار، ہیپاٹائیٹس اور فوڈ پوائزننگ ہو سکتی ہے لہٰذا بازاری کھانوں سے جتنا بھی اجتناب برتا جائے ٹھیک ہے۔ کیونکہ بہت سے اعلیٰ ہوٹل بھی صفائی کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے، برتن اچھی طرح صاف نہیں کئے جاتے جن کی ویڈیوز اکثر و بیش تر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر ہوتی ہیں۔ دوسری جانب ہوٹلوں کا گوشت ایک ہی دفعہ خرید کر فریز کر لیا جاتا ہے لیکن فریزر بار بار کھلنے کی وجہ سے ان میں جراثیم پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی گوشت ایک ایسی چیز ہے جس میں سب چیزوں سے زیادہ اور جلدی جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہی گوشت جب کھایا جاتا ہے تو اس سے پیٹ اور معدہ کی بہت سی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔ گوشت ہمیشہ تازه ہی استعمال کرنا چاہئیے۔

گذشتہ چند سالوں سے چائنیز، برٹش اور امریکن کھانے پاکستان میں بہت پسند کئے جا رہے ہیں۔ ان میں استعمال ہونے والی کچھ اشیا پاکستانی کھانوں میں بھی بکثرت استعمال ہونے لگی ہیں مثلاً مایونیز، سویا ساس، چائنیز سالٹ وغیرہ جو کہ صحت پر برا اثر ڈالتے ہیں مگر سارے ریسٹورنٹس ان کو ذائقے کے لئے استعمال کرتے ہیں جو انسانی صحت کیلئے بہت سے مسائل پیدا کر دیتی ہیں۔ آج کے دور میں نوجوانوں میں فاسٹ فوڈز کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اب سرشام بڑے بڑے ہوٹلوں میں ہی نہیں بلکہ سر راہ بھی برگر اور شوارمے، پیزا وغیرہ فروخت کرنے والوں کے ہاں بھی خریداروں کا ہجوم ہوتا ہے اور بڑی بڑی مارکیٹوں میں بھی فاسٹ فوڈز بیچنے والوں کی چاندی ہوتی ہے۔ اگرچہ کبھی کبھار ان کو چکھنا ٹھیک ہے مگر لگاتار یہ بازاری کھانوں کے استعمال سے انسانی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ ان میں استعمال ہونے والی چیزوں کے معیار اور کوالٹی کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔