کیا مریم نواز بھی مقتدر قوتوں کیساتھ مفاہمت کی راہ پر چل پڑی ہیں؟

کیا مریم نواز بھی مقتدر قوتوں کیساتھ مفاہمت کی راہ پر چل پڑی ہیں؟
جنرل پرویز مشرف کو آئین سے غداری ثابت ہونے پر خصوصی عدالت کی طرف سے جب پھانسی کی سزا سنائی گئی تو جیسے ایک کہرام برپا ہو گیا۔ کیونکہ ہماری سیاسی تاریخ میں اس طرح کسی فوجی جنرل کے خلاف ایسا فیصلہ کبھی نہیں آیا۔ اسی لیے اس فیصلہ میں مشرف کی لاش کو لٹکانے والے ریمارکس دینے والے جج وقار سیٹھ کی ذہنی حالت پر سوال اٹھائے گئے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان کی طرف سے بھی بہت سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔

اس فیصلے کو کئی حلقوں کی طرف سے خوش آئند قرار دیا گیا۔  مگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے جس طرح سے اس فیصلے کو سراہا جانا چاہیے تھا، ویسا دیکھنے میں نہیں آیا۔

گو کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو نے اس پر جمہوریت بہترین انتقام ہے کا ٹویٹ کیا۔ اور مسلم لیگ (ن)  اور پیپلز پارٹی کے کئی رہنماوں نے بھی اس کی تعریف کی مگر مسلم لیگ (ن)  کے صدر شہباز شریف کا اس فیصلے پر ردعمل نہ دینا اور مریم نواز کا اس پر مکمل خاموشی اختیار کرنا بہت حیرت انگیز امر ہے۔ 

کیونکہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ2013 میں  مسلم لیگ (ن)  کے دورِ حکومت کے دوران ہی بنایا گیا تھا۔اس لیے اب جب اس مقدمے کا فیصلہ آیا تو امید کی جا رہی تھی کہ اس پر ان کی طرف سے کافی خوشی کا اظہار کیا جائے گا اور خاص طور پر مریم نواز جنہوں نے ہمیشہ ہی اپنے والد کے ووٹ کو عزت دو اور سیاسی بالادستی کے بیانیے کو بہت  تقویت دی ہے وہ اس پر کھل کر بات کریں گی اور اس سے پارٹی بھی مضبوط ہو گی مگر ان کا اس فیصلے پراس طرح سے  خاموش رہنا بہت معنی خیز ہے اور کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مریم بی بی کے والد کی صحت اس وقت بہت خراب ہے اور وہ اپنے علاج کی غرض سے اس وقت لندن میں ہیں۔ جس کی وجہ سے مریم پریشان ہوں گی۔  مگر ایسا بھی کیا ہو گیا کہ جب ایک چھوٹے سے واقعے پر وہ ٹویٹ کر دیتی تھیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اتنے بڑے فیصلے جو کہ اس شخص کے خلاف آیا ہے جس نے ان کے والد کی حکومت کا ہی تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور ان پر مقدمات بنا کر ان کو جیلوں میں بھیجا۔ یہاں تک کہ میاں نواز شریف کے والد میاں شریف کی جب وفات ہوئی تو ان کے جنازے میں شرکت نہیں کرنے دی گئی اور ائیر پورٹ سے ہی واپس بھیج دیا گیا تھا۔ اس پر مریم بی بی کا ٹویٹر بھی خاموش ہے۔


اس سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مریم بی بی نے بھی اس وقت اپنے چچا شہباز شریف کے مفاہمت کے بیانیے کو مان لیا ہے۔ جس میں فیصلہ سازی کرنے والی قوتوں کے ساتھ اپنی باری آنے تک تعلقات ٹھیک رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس تاریخی فیصلے پر اپنا سخت ردعمل دینےکی بجائے مریم بی بی ناصرف خاموش ہیں بلکہ انھوں نے دوسری دفعہ عدالت کو ای سی ایل لسٹ سےاپنا نام نکالنے کی درخواست بھی دے دی ہے تاکہ وہ اپنے والد کے پاس لندن جا سکیں۔

جس سے ایک دفعہ پھر ڈیل کی بات سچ ہوتی نظر آ رہی ہے۔ چاہے شریف خاندان نے اس کو وقتی طور پر ہی کیوں نہ قبول کیا ہو۔ جیسے انھوں نے جنرل مشرف کے ساتھ 1999 میں دس سال جلا وطنی کی ڈیل کی تھی۔ جس کا داغ آج تک ان کے دامن پر موجود ہے اسی طرح اس ڈیل کا خمیازہ بھی شاید مسلم لیگ (ن) کو آگے چل کر بھگتنا پڑے۔


مریم بی بی کی اس خاموشی سے میرے جیسے سول بالادستی کے حامیوں کو بہت مایوسی ہوئی ہے۔ کیونکہ سول بالادستی کے حصول کے تناظر میں جنرل مشرف کا فیصلہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس پر فوج کے ردعمل نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ان کو یہ فیصلہ کتنا ناگوار گزرا ہے اور اس وقت وہ ایک کمزور پوزیشن میں ہیں۔ کیونکہ انہوں نے حکومت کو استعمال کر کے جنرل مشرف کے خلاف فیصلہ دینے والے جج وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرینس تو بھیج دیا ہے مگر اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کر سکے۔

مریم بی بی نے ایسی صورتحال میں خاموشی اختیار کر کے اور ڈیل کا حصہ بن کر عارضی طور پر اپنے خاندان کے لیے ریلیف حاصل کر لیا ہے اور شاید شہباز شریف ماڈل کے اعتبار سے مستقبل میں حکومت حاصل کرنے کی راہ بھی ہموار کر لی ہے مگر اس سب سے یہ بات ضرورعیاں ہو گئی ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی بھی شاید حکومت میں آنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو انہی قوتوں کی مدد کی ضرورت رہے گی۔

جو پہلے بھی یہ کارہائے نمایاں سرانجام دیتی رہی ہیں اور سیاسی بالادستی کا حصول ابھی شاید ایک خواب ہی رہے گا۔ جس کے پورا ہونے کی تھوڑی سی امید میاں نواز شریف اور مریم بی بی کے بیانیے سے ملی تھی۔ لگتا ہے کہ ابھی بھی یہاں پر سیاست بغیر اصولوں کے ہی چلے گی۔

مصنف جامعہ پنجاب سے ابلاغیات میں ماسٹرز کر چکے ہیں، سیکولرازم کے حامی اور سیاست، ادب اور موسیقی سے شغف رکھتے ہیں۔