Get Alerts

وکلاء کا بار کونسلز اور اپنی قیادت کے نام خط

وکلاء کا بار کونسلز اور اپنی قیادت کے نام خط
اس خدائے بزرگ و برتر کے نام سے شروع کرتے ہیں جو سب منصفوں سے بڑا منصف ہے۔اور جس سے ہم سب انصاف نہیں کرم مانگتے ہیں۔

حضور والا! ہم اس خط کے ذریعے پاکستان کے باضمیراور محنت کش وکلاء کا پیغام اپنے پیشے کی معزز قیادت کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سب خدا کے فضل سے وکیل ہیں اور ہمیں اس پر فخر ہے۔آپ ہمارے بڑے ہیں اور ہم یہ خط آپ کی خدمت اقدس میں صرف اس لیے ارسال کر رہے ہیں کیونکہ چند حالیہ واقعات کی وجہ سے آج پاکستان میں ہمارے جیسے ڈیڑھ لاکھ وکلاء، خاص طور پر نو جوان وکلا، میں تشویش اور اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ ایسے مواقع پر اگر ہم وکلاء اپنی پیشہ ورانہ قیادت سے تبادلہ خیال نہیں کریں گے تو اس کا فائدہ غیر بھی اٹھا سکتے ہیں۔

حضور والا، پیشے اور بھی ہیں، اور سبھی معزز ہیں۔ مگر ملک کی تقدیر بنانے یا بگاڑنے میں جو کردار پیشہِ وکالت کا ہے،وہ کسی اورکا ہو ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک وکلاء نظامِ انصاف میں اپنے اس کردار کو دیانت کے ساتھ ادا کرتے تھے،ہمارے معاشرے میں اس پیشے کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔کالے کوٹ کو علم،انصاف اور جرات ِرندانہ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ہم بلا شبہ ایک عظیم تاریخ کے امین ہیں۔
مگر حضور والا،وکلاء کی عظمت رفتہ کی داستانیں جنہیں دہراتے ہماری زبانیں نہیں تھکتیں،اب قصہ ہائے پارینہ بنتی جا رہی ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم روز بروز سماج میں اپنی عزت کھو رہے ہیں اور یہ ہم سب کے لیے بڑے دکھ کی بات ہے۔آج سوال یہ ہے کہ!

تھے وہ آباء تمہارے ہی،مگر تم کیا ہو؟

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (PIC) والے واقعہ ہی کو لے لیجئے، اگرچہ سچ بات تو یہ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ ساری دنیا نے وہ وڈیو دیکھ لی ہے جس میں ہماری پیشہ وارانہ برادری کے کچھ گمراہ لوگ کالا کوٹ پہن کر ایک ہسپتال پر یلغار کر رہے ہیں۔یہ درست ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی،ہر واقعہ کا کوئی پس منظر ہوتا ہے،اس کا بھی تھا۔ مگر پسِ منظر جو بھی ہو، ہسپتال پر منظم حملہ کا جواز ہو ہی نہیں سکتا۔ اس سے پہلے پولیس والوں، سرکاری اہل کاروں، موکَلوں اور ججوں پر بھی حملے ہو چکے ہیں۔ ایسی حرکتوں کا دفاع ممکن نہیں اور دفاع کرنا ہمیں زیب بھی نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں ہمارے پیشے کی قیادت نے جو مبہم موقف اپنایا ہے اس سے ہمیں دکھ ہوا ہے۔

حضور والا، ہماری صفوں میں شامل چند منظم مگر گمراہ زور آوروں کی وجہ سے محنتی اور شریف وکلاء کی اکژیت کو روزانہ معاشرے میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چند غیر ذمہ دار لوگوں کی وجہ سے ہم سب کے سرشرم سے جھک گئے ہیں۔ اس لیے گزارش ہے کہ ہمیں ہسپتال پر حملے کی دوٹوک مذمت کرنی چاہیے۔

ملزموں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔ اپنوں کی پشت پناہی کے بجائے انصاف کا بول بالا کرنا چاہیے۔

آج اگر حالا ت اس نہج تک آ گئے ہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ شاید کچھ نہ کچھ غفلت ہم اور آپ سے بھی ہوئی ہے۔ یہ وقت اوروں پرانگلیاں اٹھانے کا نہیں، خود احتسابی کا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں اگر ہماری بار کونسلز وکلاء کی چھوٹی چھوٹی دست درازیوں کی حوصلہ شکنی کرتیں،ضابطہ اخلاق کے مطابق تادیبی کاروائی کرتیں،تو شاید آج کسی کی یہ جرات نہ ہوتی کہ وہ اتنا بڑا ستم ڈھائے۔جب تک ہم اپنی اس اجتماعی غفلت کا اعتراف نہیں کریں گے،کالے کوٹ کی عزت بحال نہیں ہو گی۔

یہ درست ہے کہ مقتدر حلقوں میں کچھ پراسرار قوتیں ایسی ہیں جن کی نظروں میں کالا کو ٹ بہت کھٹکتا ہے۔ اس لیے کہ کالا کوٹ قانون کی بالا دستی اور حاکم و محکوم کی برابری کی علامت ہے۔ یہ قوتیں ہمیں بد نام کروانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ وکلاء کو طریقے طریقے سے اشتعال دلایا جائے اورانہیں معاشرے کے معززلوگوں سے لڑایا جائے، تاکہ وکلاء کو عوام سے " وکلاء گردی" کا طعنہ ملے۔مگر ہمیں اس جال میں پھنسنے کے بجاے وکلاء کو صبر و تحمل اور بردباری کی تربیت دینی چاہیے۔

ایک چھوٹی سی گزارش اور بھی ہے۔ ہمیں آپ کی جانب سے اکثرہڑتالوں کے حکم نامے موصول ہوتے ہیں۔اس حوالے سے کچھ سوالات ہمارے ذہن میں اٹھ رہے ہیں ۔اگر کوئی "عدالت" ہم وکلاء کی اجتماعی رائے میں غیر آئینی قرار پائے،جیسا کہ 2007 میں ہوا تھا،تو اس کا بائیکاٹ قابلِ فہم ہے۔کیونکہ اگرہم وکلاء کسی نا م نہاد"کورٹ "کو سرے سے عدالت مانتے ہی نہیں، تو اس کے سامنے پیش کیوں ہوں۔مگر جن عدالتوں کی آئینی حیثیت تسلیم شدہ ہے،ان کے سامنے نہ پیش ہونے کی کوئی دلیل ہمیں نہیں مل سکی۔ بلکہ ہم سمجھتے ہیں کی وکلاء کا تو سب سے بنیادی پیشہ ورانہ فرض ہی یہ ہے کہ وہ عدالت کے روبرو پیش ہوں اوراپنے موکلوں کے مقدمے احسن طریقے سے پیش کریں۔جب ہمیں ہڑتالوں کا حکم ملتا ہے تو ہمیں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شایدہم اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں غفلت برت رہے ہیں۔
جب یہ سوال ہمارے ذہن میں اٹھا تو ہم نے بار کونسلز ایکٹ 1973 کا جائزہ لیا۔ اس قانون کی شق 9 اور شق 13 میں بار کونسلز کے اختیارات بڑی تفصیل سے بیان کر دیے گئے ہیں۔ ہڑتالیں کروانے کے اختیار کا ان شقوں میں کہیں نہیں ملتا۔ ایک ہمسایہ ملک کی عدالتیں بھی غور وخوض کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ بار کونسلز کے پاس وکلاء کو عدالتوں کے روبرو پیش ہونے سے روکنے کا اختیار نہیں۔ ہم چونکہ بار کونسلز کے ماتحت ہونے کے ساتھ ساتھ وکیل بھی ہیں،اس لیے یہ قانونی رائے بارکونسلز کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں ۔ہمیں یقین ہے کہ اب جب کہ یہ سوال اٹھا دیا گیا ہے، ہماری بارکونسلز خالصتاََ قانونی موقف اختیا ر فرمائیں گی۔

حضور والا، ہم ہڑتالوں کے خلاف،مگر پر امن احتجاج کے حق میں ہیں۔آپ قانون کی بالا دستی اور جمہوری طرزِ حکمرانی کے لئے پر امن مارچ کریں ،ہم ماضی کی طرح آج بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔آپ عدالتوں میں، پارلیمان میں،اور میڈیا میں وکلاء کے حقوق کی جنگ لڑیں، ہم تہِہ دل سے آپ کی تائید کریں گے مگر آپ جب عدالتوں کو تالے لگوانے کی کوشش کریں گے، تو ہم شاید آپ سے تعاون نہ کر پائیں۔

حضور والا، 2007 میں ہمیں پاکستانی معاشرے میں جو عزت ملی تھی وہ صرف اخلاقی قوت کی وجہ سے تھی۔ اُس وقت ہم اِس اندھیر نگری میں اچانک سے انصاف کا ترازو اٹھائے منظر عام پر آئے تھے۔ ہمارا مدمقابل ایک ایسا تخت نشین تھا جو اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر خون ناخق بہاتا تھا اور ہم ماریں کھا کر بھی انصاف کا دامن چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ ہم فتح منداس لئے ہوئے تھے کہ ہم نے انصاف کا دامن تھاما ہو اتھا۔

اگرآج ہم نے اپنوں کی پشت پناہی کی خاطر انصاف کے ترازو میں خلل پیدا کیا تو ہمیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔آسمانی صحیفوں میں یہ بات بار بار آئی ہے کہ اپنوں کے ساتھ انصاف کرنا انسان کا سب سے بڑا امتحان ہے۔یہ بات قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ میں بھی آئی ہے،جس کی تلاوت ہماری عدالتوں میں اکثر ہوتی ہے۔ہم دعا گو ہیں کہ خداا تعالیٰ ہمیں اس امتحان میں کامیاب کرے اور ہم خود احتسابی کے ذریعہ کالے کوٹ کی گرتی ہوئی ساکھ بحال کردیں۔

فدویان:

1۔ سید علی رضا، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
2۔ افنان کریم کنڈی، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
3۔ بابر ستار، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
4۔ عطا اللہ حکیم کنڈی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
5۔ احسان علی قاضی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
6۔ بابر ممتاز، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
7۔ مصباح المصطفی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
8۔ محمد احمداسلم چوہدری، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
9۔ عدنا ن حیدر رندھاوا، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
10۔ عمر فاروق، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
11۔ ببر علی خان، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
12۔ ماجد رشید خان، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
13۔ عمر اعجاز گیلانی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
14۔ محمد حیدر امتیاز، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
15۔ معظم حبیب، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
16۔ وسیم عابد، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
17۔ زینب جنجوعہ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
18۔ سعد خان مایار، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
19۔ اسامہ خلجی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
20۔ عائشہ صدیق خان، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
21۔ مصباح عاشق، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
22۔ ایمان مزاری، ایڈووکیٹ 23۔ اسد لادھا، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
24۔ راحیل احمد، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
25۔ مشہود حسن اعوان، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
26۔ ربیع بن طارق، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
27۔ محمد بن ماجد، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
28۔ ظفر کنڈی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
29۔ احسن پیرزادہ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
30۔ اویس اعوان، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
31۔ رمشہ نوشاب، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
32۔ عمر سعید، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
33۔ دانش آفتاب، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
34۔ انیق ملک، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
35۔ عمر عمران ملک، ایڈووکیٹ
36۔ کبیر ہاشمی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
38۔ صہیب شاھد،، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
39۔ دانیال حسن، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
40۔ نوشیروان نیاز احمد، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
41۔ عبید عباسی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
42۔ اسامہ جمشید، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
43۔ سرور مظفر شاہ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
44۔ عمر رحمن، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
45۔ مریم علی عباسی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
46۔ سیدہ جگنو کاظمی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
47۔ فیصل خان طورو، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
48۔ سلیمان خان طورو، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
49۔ عمر عامر، ایڈووکیٹ
50۔ ازین حفیظ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
51۔ ماہم جمال، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
52۔ صفت اللہ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
53۔ سید فراز ر ضا، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
54۔ بلال اکبر لغاری، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
55۔ عقیل ملک، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
56۔ سید ریا ض حسین، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
57۔ مرزا عاصم بیگ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
58۔ عدنان اقبال، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
59۔ حافظ نعیم، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
60۔ فضل قادر خان، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
61۔ نبیل رحمن، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
62۔ مدشر لطیف عباسی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
63۔ سید شفقات احمد، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
64۔ محمد بلال، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
65۔ محمد عبد الرافع صدیقی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
66۔ میاں سمیع الدین، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
67۔ وقاص عزیز قریشی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
68۔ محمد شعیب شیخ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
69۔ مصطفی شیرپاؤ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
70۔ کلیم حسین، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
71۔ یحیی فرید خواجہ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
72۔ مریم فرید خواجہ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
73۔ سلیمان زیب، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
74۔ عبد الھادی محمد علی چٹھہ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
75۔ جواد الرحیم، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
76۔ شایان عباس، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
77 - میمنہ خٹک، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
78- چوہدری محمد فاروق، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
79 - راجہ سیف الرحمن،
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
80- سعد ہاشمی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
81 - کاشفہ نیاز اعوان، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
82 - رحیمہ خان، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
83 - سکندر نعیم، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ