وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی وزرا کی کارکردگی کے جائزے اور ان کو نئے اہداف سونپنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی حکومت کی ان گنت ناکامیوں کی وجہ حکومتوں کی مناسب تربیت کا انتظام نہ ہونے کو قرار دیا ہے۔ انہوں نے امریکہ میں جو بائیڈن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہر نئی آنے والی حکومت کو کچھ عرصہ حقائق کی بریفنگ کے لئے چاہیے ہوتا ہے تاکہ وہ اقتدار میں آئے تو اسے ہر بات کی پہلے سے خبر ہو اور وہ اس حوالے سے اپنا پروگرام پہلے سے بنا کر پھر حکومت حاصل کرے۔ جو بائیڈن کی ٹیم کو جس طرح بریفنگ دی جاتی ہے، اس طرح سے ہمیں نہیں ملی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے تو کئی ماہ ہمیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہو کیا رہا ہے۔ تین مہینے تک فائلیں ہی دیکھتے رہے۔ معیشت کی تو ایک سال تک سمجھ نہیں آئی۔ کبھی وزارتِ خزانہ سے کوئی ایک indicator آ جاتا تھا کہ بہتر ہو رہا ہے، ہم سمجھتے تھے کہ معاملہ ٹھیک ہو گیا، چند ہفتے بعد پتہ چلتا تھا کہ یہ تو ناکافی ہے، اس سے تو کام نہیں چل رہا۔ اب جا کر ہمیں سمجھ آئی ہے۔
وزیر اعظم نے یہاں یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ ہمیں تو یہ ہی نہیں پتہ تھا کہ اٹھارھویں ترمیم میں یہ سب چیزیں تو صوبوں کے پاس چلی جاتی ہیں، پھر مرکز کے پاس کیا بچتا ہے اور اس کو کس طرح سے کام میں لایا جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ پانچ سال خیبر پختونخوا میں حکومت کرنے والی جماعت کے سربراہ کو یہ ہی نہیں پتہ تھا کہ وفاق کے پاس کیا کیا ہوتا ہے اور اس میں سے صوبے کے پاس کیا کچھ آتا ہے۔ وہ صوبوں اور وفاق کے درمیان اختیارات اور وسائل کی تقسیم ہی نہیں جانتے تھے۔ تھوڑا پیچھے نظر دوڑائی جائے تو ایک وقت وہ بھی تھا جب پرویز خٹک صاحب اور خیبر پختونخوا حکومت کے دیگر وزرا وفاق میں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے وفاقی حکومت سے خیبر پختونخوا میں بنے ڈیمز سے پیدا ہونے والی بجلی میں سے اپنا حصہ مانگا کرتے تھے اور نہ ملنے پر وفاق پر اپنا حصہ غصب کرنے کا الزام لگایا کرتے تھے۔ اور اب یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم کے مطابق وفاق کے پاس کچھ نہیں بچتا اور صوبے سب کھا جاتے ہیں۔ سب چھوڑیے، وزیر اعظم تو یہی نہیں جانتے کہ وسائل کی تقسیم کیا ہوتی ہے۔
پھر انہوں نے کہا کہ معیشت کی ایک سال تک ہمیں سمجھ ہی نہیں آئی۔ ایک اشاریے کہ پیچھے لگ کر کہتے تھے کہ سب ٹھیک ہو رہا ہے۔ لیکن پھر پتہ چلتا تھا کہ وہ تو معاملہ ٹھیک نہیں بیٹھا۔ تو یعنی جس وقت وہ قوم کو نصیحت کر رہے تھے کہ گھبرانا نہیں ہے، انہیں تب تک سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ معیشت چلتی کیسے ہے۔ گذشتہ ہفتے وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ہمیں IMF کے پاس کچھ جلدی چلے جانا چاہیے تھا، اس میں دیر کر کے ہم نے اہم ترین مہ و سال ضائع کر دیے۔ ذرا سوچیے، کہ جب ان کو یہ کہا جاتا تھا کہ IMF کے پاس جائے بغیر گزارا نہیں ہوگا، تو وزیر اعظم کے حامی کہا کرتے تھے کہ یہ پرانے زمانے کی سوچیں ہیں اور نئے پاکستان میں ان کو ساتھ لے کر نہیں چلا جا سکتا۔ بالآخر اسد عمر کو بھی نکالا گیا، جنہیں 2011 سے ایک مسیحا بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔ پھر IMF بھی گئے۔ اب دوبارہ IMF جانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
اور پھر سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب معیشت کی سمجھ آ گئی ہے؟ گذشتہ کئی مہینے سے حکومتی بزر جمہر بضد ہیں کہ ہم نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کر دیا۔ اسے اپنی کامیابی بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ یہ سوچے بغیر کہ اول تو محض درآمدات کو کم کیا جانا کافی نہیں، دوجے یہ کہ درآمدات کم ہونا اس بات کی بھی نشاندہی تھی کہ معیشت سکڑ رہی ہے۔ مگر ٹوکنے والوں کو دشنام دیا جاتا۔ قرضے ساتویں آسمان پر جا پہنچے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت نے پانچ سال میں جتنا قرض لیا، اتنا پچھلے دو سال میں لیا جا چکا ہے لیکن ایک ہی رٹ تھی کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو گیا ہے۔ اب بھی دیکھ لیجئے۔ سارا زور بیرون ملک سے آنے والی remittances کے بہتر ہونے پر ہے۔ گویا ہم سے تو کچھ نہ ہو سکا، باہر سے بہت پیسہ بھیج رہے ہیں لوگ۔ اسے کامیابی بنا کر پیش کرنے کا مطلب یہی ہے کہ کامیابی دکھانے کے لئے کچھ ہے نہیں۔
آخر میں وزیر اعظم نے کہا کہ اب کوئی عذر نہیں، سب کو کارکردگی دکھانا ہوگی اور ہم اہداف دیں گے، کارکردگی کی جانچ ہوگی۔ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔ پچھلے دو سال میں بار بار کابینہ میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، ہر بار یہی کہا جاتا تھا کہ کارکردگی اچھی نہیں تھی، اس لئے ٹیم reshuffle کر کے دوبارہ سے کھلائی گئی ہے۔ نتائج کچھ زیادہ مختلف نہیں رہے لیکن وقت مل گیا۔ پھر جون میں، یعنی اب سے ٹھیک چھ ماہ پہلے 23 تاریخ کو فواد چودھری نے سہیل وڑائچ کو وائس آف امریکہ پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے چھ مہینے دے دیے ہیں، اس کے بعد کوئی عذر نہیں ہوگا، ہمارے پاس اب بس یہ آخری موقع ہے کہ اپنی کارکردگی بہتر کر لیں۔ ٹھیک چھ ماہ بعد 22 دسمبر کو وزیر اعظم نے ایک تقریب میں پھر کہا ہے کہ اب کوئی عذر نہیں، وزرا کے پاس اہداف ہیں، یہ پورے ہونے چاہئیں اور ہم حساب لیں گے۔ مقصد اب بھی شاید عوام کو یہ پیغام دینا تھا کہ اب ہم سنجیدہ ہو گئے ہیں، ہمیں سمجھ آ گئی ہے، لیکن اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔
یہ حیلے بہانے عوام کے مسائل حل لیکن نہیں کر رہے۔ انڈے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ چکے ہیں، سبزی، دالیں، چینی، پٹرول، گیس، بجلی، پھل، ہر چیز عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ کروڑوں افراد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خطِ غربت سے نیچے جا چکے ہیں۔ روزگار کم ہو رہے ہیں، معیشت سکڑ رہی ہے۔ اور عوام بس ایک ہی دعا کر رہے ہیں، کہ خدا کرے اس بار واقعی سمجھ آ گئی ہو، اور اب کے یہ اہداف حاصل ہو جائیں، دوبارہ آخری موقع نہ دینا پڑے۔ اللہ ہماری مشکلیں آسان کرے۔ آمین۔