انسدادِ ہراسانی کمیٹیاں بھی اساتذہ کا ساتھ دینے لگیں، طالبات اپنی فریاد کسے سنائیں؟

انسدادِ ہراسانی کمیٹیاں بھی اساتذہ کا ساتھ دینے لگیں، طالبات اپنی فریاد کسے سنائیں؟
بچن سے ہمیں والدین کی جانب سے ہمیشہ یہی سیکھایا جاتا تھا کہ اساتذہ بھی والدین کی طرح ہی قابل احترام ہیں لیکن یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد بعض اساتذہ کا مکروہ چہرہ دیکھ کر مجھے حقیقت بالکل اس کے برعکس لگی۔ یہ کہانی ہے راولپنڈی کی ایک نامور یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم حنا علی (فرضی نام) کی جسے دوستی کرنے کے لئے اس کے اپنے استاد کی جانب سے دباو کا سامنا کرنا پڑا۔ حنا کہتی ہیں کہ ان کا استاد انہیں رات گئے میسجز اور فون کالز کرتا تھا حتیٰ کہ استاد نے اسے ڈگری مکمل ہونے کے بعد یونیورسٹی میں ملازمت کی بھی پیشکش کی۔ لیکن ان کی جانب سے مسلسل نظر انداز کرنے اور پیشکش مسترد کرنے پر اسے امتحان میں D گریڈ دے کر یہ پیغام دیا گیا کہ اگر اس نے استاد کی خواہش پوری نہ کی تو اسے آئندہ سمسٹر میں بھی D گریڈ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایسا صرف حنا کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ بہت سی طالبات کو اساتذہ کی جانب سے اس قسم کے رویئے کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ سماج میں بدنامی یا کریئر میں ناکامی کے خوف سے شکایت نہیں کرتیں۔ تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں میں ہراسانی کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔

سرکاری یونیورسٹی کی ایک اور طالبہ فائزہ علی (فرضی نام) کہتی ہیں کہ یونیورسٹیوں میں انسداد ہراسانی کے لئے قائم کمیٹیاں صرف ایک رسمی کارروائی ہے۔ یہ کمیٹیاں اسی ادارے کے اساتذہ پر مشتمل ہوتی ہیں جو کسی بھی شکایت کی صورت میں طلبہ کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے اپنے ساتھیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے نظام میں اساتذہ کے پاس لامحدود اختیارات ہوتے ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ طلبہ کا استحصال کرتے ہیں۔



وہ کہتی ہیں کہ اگر کوئی طالبہ کسی استاد کے برے اعمال کا ذکر کسی دوسرے استاد یا یونیورسٹی انتظامیہ سے کرتی ہے تو اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کسی بھی صورت میں لڑکی کو ہی قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے جس کی وجہ سے طالبات شکایت کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

غیر سرکاری تنظیم دختر فاؤنڈیشن کی جانب سے اپریل 2018 میں کام کرنے والی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کو رپورٹ کرنے اور متاثرہ خواتین کی مدد کرنے کے لئے ٹیلی فون ہیلپ لائن کا قیام عمل میں لایا تھا۔

مذکورہ تنظیم کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق انہیں 20 ہزار 741 شکایات موصول ہوئی ہیں اور حیرت انگیز طور پر ان میں 16 ہزار 981 شکایات جو کل شکایات کا 82 فیصد ہیں انہیں مختلف یونیورسٹیوں کی طالبات کی جانب سے موصول ہوئیں جہاں انہیں اساتذہ یا یونیورسٹی ملازمین کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی شکایات تھیں۔

دختر فاؤنڈیشن کی صدر حمیرا سید کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مقابلے میں طالبات کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کی شرح سرکاری یونیورسٹیوں میں زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض واقعات تو یونیورسٹی کی جانب سے قائم کردہ انسداد ہراسانی کمیٹی کے اراکین بھی طالبات کو ہراساں کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں جس کی وجہ سے طالبات ان کمیٹیوں کے پاس اپنی شکایات لے کر جانے سے گریز کرتی ہیں۔



حمیرا سید نے بتایا کہ دختر فاؤنڈیشن کی ٹیم صحافیوں، وکلا، سماجی کارکنوں اور ماہر نفسیات پر مشتمل ہے، اور ہم اپنی ہیلپ لائن پر رابطہ کرنے والی طالبات کو رازداری کا یقین دلاتے ہیں۔

وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کو کل 1140 شکایات موصول ہوئیں جن میں 1063 کو نمٹا لیا گیا ہے۔ ہراسانی سے متعلق شکایات میں پنجاب 500 سے زائد شکایات کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اس فہرست میں 391 شکایات کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ سندھ سے ہراسانی کی 132، خیبرپختونخوا سے 80 اور بلوچستان سے 32 شکایات موصول ہوئی ہیں۔

وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کے اہلکار نے بتایا کہ باقاعدگی سے ہراسانی سے متعلق آگاہی مہم کی بدولت سال 2019 میں شکایات کی تعداد 2018 کی نسبت دگنی ہے۔ جن میں سے ایک بڑی تعداد تعلیمی اداروں سے متعلق بھی ہے۔

وفاقی محستب برائے انسداد ہراسانی کی سربراہ کشمالہ طارق نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں میں ہراسانی کی بڑی وجہ سمسٹر سسٹم ہے جو اساتذہ کو لامحدود اختیارات دیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں میں قائم انسداد ہراسانی کمیٹیاں غیر فعال ہیں۔ اس مسئلے پر قابو اسی صورت میں پایا جا سکتا ہے کہ ہم طالبات میں حوصلہ پیدا کریں کہ اس قسم کی صورتحال میں اپنی سہیلیوں سے بات شیئر کریں تاکہ بوقت ضرورت وہ گواہی دے سکیں، جس سے ان کا کیس زیادہ مضبوط ہوگا۔



ہراسانی بمقام کار ایکٹ 2010 کے تحت ہر ادارے نے اس قانون کے بننے کے بعد تیس یوم میں اس ایکٹ کے تحت موصول ہونے والی شکایات کو سننے کے لئے انکوائری کمیٹی تشکیل دینی ہے۔ مذکورہ انکوائری کمیٹی کے باس جرمانے یا ملازمت سے نکالنے کی سفارش کرنے کا اختیار ہوگا۔

فاطمہ جناح وومن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر ثمینہ امین قادر کہتی ہیں کہ اس قسم کے واقعات عموماً استاد اور طالبہ کے درمیان مخص غلط فہمی ہوتی ہے۔ ہماری یونیورسٹی میں اس قسم کے واقعات کی تحقیقات کو دو مرحلوں میں تقیسم کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں ہراسمنٹ مانیٹرنگ آفیسر واقعہ کی تحقیقات کرتا ہے اور عموماً مسئلہ یہیں پر حل ہو جاتا ہے لیکن اگر پھر بھی طالبہ کے تحفظات دور نہ ہوں تو اسے انسداد ہراسانی کمیٹی کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ پانچ سال کے دوران صرف ایک کیس انسداد ہراسانی کمیٹی کے پاس گیا ہے اور اس کیس میں بھی استاد بے قصور پایا گیا ہے۔



ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ثمینہ کا کہنا تھا کہ پاکستان سٹیزن پورٹل اس قسم کی شکایات کے لئے طاالبات کے پاس بہترین ذریعہ ہے۔

دعؤوں کے برعکس جب مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ سے ان کے ادارے میں قائم انسداد ہراسانی کمیٹی کے بارے میں پوچھا گیا تو بیشر نے اس حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں معلوم نہیں کہ ایسی کوئی کمیٹی ہے بھی یا نہیں اور اگر ہے تو اس کے ممبران کون کون ہیں۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے سوسیالوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر محمد زمان سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہراسانی صرف تعلیمی اداروں کا مسلہ نہیں ہے مجموعی طور پر معاشرتی اقدار گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں اور پھر اساتذہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ اس مقدس پیشے سے وابستہ بعض کالی بھڑیں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض اوقات طالبات بھی اس مسئلے کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور زیادہ نمبر لینے کے لئے استاد کو بلیک میل کرتی ہیں جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔



ڈاکٹر زمان کا کہنا تھا کہ یہ بھی درست ہے کہ تعلیمی اداروں میں قائم انسداد ہراسانی کمیٹی صرف ایک رسمی کارروائی ہے اور کمیٹی کے ممبران کسی بھی شکایت کی صورت میں اپنے دوستوں کا ساتھ دیتے ہیں۔

اس حوالے سے جب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ترجمان عائشہ اکرام سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ تمام یونیورسٹیاں خود مختار ادارے ہیں اور انہوں نے اس قسم کے مسئلے طے کردہ طریقہ کار کے مطابق خود حل کرنے ہوتے ہیں۔ اگر شکایت کنندہ یونیورسٹی کی کمیٹی کے فیصلے سے مطمئن نہیں تو اس کے پاس اختیار ہے کہ وہ مذکورہ قانون کے مطابق وفاقی محستب میں شکایت کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں قائم انسداد ہراسانی کمیٹیوں کی نگرانی ایچ ای سی کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔