خضدار؛ اصل مقابلہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 19 میں ہو گا

یہ سیٹ جتنی اہم ہے اس پر مقابلہ اتنا ہی مشکل ہے۔ یہاں تین مضبوط امیدوار مدمقابل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی فتح یاب ہو سکتا ہے۔ کسی کے حوالے سے یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جیتے گا کیونکہ تینوں امیدوار مضبوط ہیں۔

خضدار؛ اصل مقابلہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 19 میں ہو گا

ملک میں انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ ہر طرف گہماگہمی ہے۔ خضدار میں اگر الیکشن پر نظر ڈالیں تو عجیب صورت حال نظر آتی ہے۔ کوئی وفاداریاں تبدیل کررہا ہے تو کوئی نبھانے کا عہد کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی ناراض ہے تو کوئی شکوہ کناں ہے۔ ہر ایک اپنی نفسیاتی برتری دکھانے کے جتن کر رہا ہے۔ ایک نفسیاتی جنگ شروع ہے۔ اس جنگ میں خود کو فتح یاب دکھانے کے لیے اپنے ہی لوگوں کی دو دو بار پارٹی میں شمولیت کرائی جا رہی ہے۔ کسی کی صبح ایک پارٹی میں تو رات دوسری پارٹی میں ہوتی ہے۔ ایک دن اپنی پارٹی سے شکوہ اور راہیں جدا کرنے کا بیان تو اگلے دن تردیدی بیان آتا ہے۔ عجیب کشمکش ہے۔

اس تمام صورت حال میں اور نفسیاتی برتری کی کوششوں سے قطع نظر اگر زمینی حقائق اور عوامی رجحانات کو دیکھا جائے تو الیکشن سے قبل ہی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ خضدار میں صوبائی اسمبلی کی 3 جبکہ قومی اسمبلی کی 1 نشست ہے۔ ان میں سے دو صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کی نشست کا فیصلہ قبل از الیکشن واضح ہے۔ ہر خاص و عام جانتا ہے اور نتائج بتا سکتا ہے کہ پی بی 18 سے نواب ثناء اللہ خان زہری، پی بی 20 سے سردار اختر مینگل اور این اے 256 سے بھی سردار اختر مینگل سیٹ نکالنے میں کامیاب رہیں گے۔ تاہم پی بی 18 میں جمعیت کارکنان کی انتھک محنت سے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔ رہی بات پی بی 19 خضدار کی تو اس سیٹ پر اصل الیکشن ہوں گے اور الیکشن کا منبع و مرکز یہ حلقہ ہے۔

یہ سیٹ جتنی اہم ہے اس پر مقابلہ اتنا ہی مشکل ہے۔ یہاں تین مضبوط امیدوار مدمقابل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی فتح یاب ہو سکتا ہے۔ کسی کے حوالے سے یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جیتے گا کیونکہ تینوں امیدوار مضبوط ہیں۔ تاہم اگر ہم سابق ریکارڈ دیکھیں تو اس لحاظ سے خضدار میں الیکشن سے پہلے جو نام زبان زد عام ہوتا ہے بالآخر جیت اسی کی ہوتی ہے۔ 2018 میں جس سے بھی پوچھا جاتا تھا اس کا یہی جواب ہوتا تھا کہ اس بار میر یونس زہری ہی آئے گا اور ہوا بھی ایسا بھی۔ لیکن اس بار غیر تو غیر، اپنے بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ میر یونس زہری تو وڑ جائے گا۔

بہر کیف اس بار دو نہیں بلکہ تین امیدواروں کے درمیان اعصاب شکن مقابلہ ہے۔ زبان زد عام سے محسوس ہو رہا ہے کہ اس بار سابق جیتے ہوئے دو امیدواروں کے بجائے کوئی نیا چہرہ ایم پی اے بن سکتا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اگر 2018 کے الیکشن کے نتائج کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو سردار اسلم بزنجو کی جیت نظر آتی ہے کیونکہ 2018 میں سردار اسلم بزنجو نے ووٹ اٹھایا تھا۔ چونکہ اہل اقتدار سے ہمیشہ ناراضگی ہوتی ہے تو اس بنا پر نال کے لوگوں نے سردار اسلم بزنجو سے ناراضگی کی بنا پر انہیں ووٹ نہیں دیے تھے جس کا خمیازہ ان کو پانچ سال تک بھگتنا پڑا۔ اس بار وہ اپنی یہ غلطی نہیں دہرائیں گے۔ نیشنل پارٹی کے کارکنوں کے علاوہ دیگر پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے نال کے لوگ بھی سردار اسلم بزنجو کو ووٹ دیں گے۔ اسی طرح خالد بزنجو کی ناراضگی اور ایک بڑے گروپ کے الگ ہونے نے بھی سردار اسلم بزنجو کے ووٹ پر گہرا اثر چھوڑا تھا لیکن اس بار خالد بزنجو کی وہ اہمیت اور مقبولیت باقی نہیں رہی اور لوگ سمجھ گئے کہ یہ ناراضگی خالد بزنجو کے ذاتی مفادات کی ناراضگی ہے، نال کی فلاح و بہبود کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ صرف اور صرف سوداگری ہے۔

اس تمام جمع تفریق سے نتائج نکل آتے ہیں لیکن اگر ہم سابق نتائج کو دیکھیں تو اس کے مطابق جمعیت علماء اسلام کے امیدوار میر یونس عزیز زہری نے 13497، سردار اسلم بزنجو نے 10087، آغا شکیل نے 8392 اور میر اسرار اللہ زہری نے 5338 ووٹ حاصل کیے تھے۔ یعنی سابق ایم پی اے میر یونس عزیز زہری محض 3410 ووٹ کی لیڈ سے کامیاب ہوئے تھے۔ یہ کامیابی کسی لالچ یا دھونس دھمکی کے نتیجے میں نہیں ملی تھی بلکہ جمعیت علماء اسلام کے نظریاتی کارکنان کے جذبے اور اخلاص کا نتیجہ تھا۔ تاہم پانچ سالہ اقتدار کی مجبوریوں نے اخلاص کا پارہ پارہ کر دیا۔ نہ اخلاص رہا اور نہ ہی نظریہ، بلکہ نظریہ ضرورت چلتا رہا۔ اس کے نتائج بلدیاتی الیکشن میں سامنے آئے جب سابق ایم پی اے نے جمعیت علماء اسلام سے میونسپل کارپوریشن میں تین کونسلر مانگے کہ یہاں یہاں ان کی مرضی سے امیدوار آئیں گے اور وہ ان کو کامیاب کروانے کے ضامن ہیں۔ ہر صورت ان تینوں کو کامیاب بنائیں گے۔ شاید اس کے ذہن پر پیسے اور لالچ کا جادو چڑھا ہوا تھا۔ پیسہ خوب چلایا لیکن نتیجے میں تینوں امیدواران ہار گئے یعنی نظریات جیت گئے اور پیسے اور لالچ کو شکست ہوئی۔ یوں نظریہ ضرورت وہاں ناکام رہا۔

الیکشن میں اصل ووٹ کارکن کا اپنا نہیں بلکہ وہ ووٹ ہوتا ہے جو وہ نکالتا ہے۔ بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ خون پسینہ بہاتا ہے۔ یہ اس صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ جب کارکن ایک مذہبی یا قومی جذبہ کے تحت کام کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب ایک طرف مایوسی اور دوسری جانب لالچ کا عنصر ہو تو یہ جذبہ مفقود ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بی این پی مینگل کے کارکنان بھی میر یونس عزیز زہری سے سخت مایوس ہیں کہ گذشتہ پانچ سال کے دوران ان کے لیے ذرا برابر بھی کام نہیں ہوا بلکہ جس گلی کو پختہ اور ٹف ٹائل کرنا ہوتا ہے تو اس ایریا کو چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں بی این پی مینگل یا دوسری پارٹی کے لوگوں کے گھر ہوتے ہیں۔ اس صورت حال سے تنگ آ کر بی این پی مینگل کے ایک رہنما کا وائس میسج بھی سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوا تھا جس میں وہ میر یونس زہری کو مخاطب کر کے احوال سنا رہے تھے۔ جبکہ جمعیت علماء اسلام کے غریب کارکنان کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا تھا۔ سوائے چند چیدہ چیدہ لوگوں کے کہ جن کو ٹھیکوں سے نوازا گیا۔

بہرحال اس دفعہ جمعیت علماء اسلام کے نظریاتی کارکنوں میں اس درجہ کا جذبہ نظر نہیں آ رہا، مایوسی کا برملا اظہار ہو رہا ہے۔ ایک بار نہیں، بار بار کیا جا رہا ہے۔ البتہ اگر ہم پی بی 20 کی بات کریں تو وہاں جمعیت کے کارکناں جان کی بازی لگا کر محنت کر رہے ہیں۔ اب ان کی امیدوں کا محور نوجوان امیدوار وڈیرہ غلام سرور زہری ہے۔ جو جذبہ 2018 میں پی بی 19 میں تھا وہ جذبہ اور محنت اس بار پی بی 18 میں ہے۔ اسی طرح کا جذبہ سوراب میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ (تاہم وہ حلقہ خضدار سے باہر دوسرے ڈسٹرکٹ میں ہے اس پر ایک الگ تجزیہ پیش کیا جائے گا)

اس وقت کی صورت حال اور زمینی حقائق کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ پہلی پوزیشن سردار اسلم بزنجو، دوسری پوزیشن آغا شکیل احمد خضداری اور تیسری پوزیشن پر سابق ایم پی اے میر یونس زہری ہوں گے۔ سردار اسلم بزنجو اور آغا شکیل احمد کے درمیان 19، 20 کا فرق رہے گا۔ تینوں رہنماؤں میں سے اگر کسی کے لیے محکمہ زراعت کے ملازمین نے ووٹ نہیں کیا تو سول ووٹ کا مارجن بہرحال ایسا ہی ہو گا۔ خیر یہاں کچھ بھی ممکن ہے۔ (2018 میں وڈیرہ مرحوم کا کیس سب سے بڑی دلیل ہے)

برسبیل تذکرہ  راقم نے بلدیاتی الیکشن پر کچھ اسی طرح کا تجزیہ کیا تھا جس میں جمعیت علماء اسلام کو تیسری پوزیشن پر رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد جمعیت اور اس وقت کے باپ کے کارکنان نے تنقید کی تھی تاہم نتائج بعینہ اسی طرح نکلے تھے۔

محمد اقبال مینگل گذشتہ چھ سال سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں ۔وہ خضدار پریس کلب کے جنرل سیکریٹری ہیں اورچینل 92 نیوز کے ساتھ بطور رپورٹر وابستہ ہیں۔