'فروری کے مہینے میں گوادر میں غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے اولڈ سٹی کے زیادہ تر گھر اور گلیاں ڈوب گئے، ہم یہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ بارشوں کی وجہ سے ہمارے گھر ڈوب سکتے ہیں۔' یہ کہنا ہے گوادر کے رہائشی شمع بلوچ کا۔ گوادر میں سینکڑوں ایسے خاندان ہیں جو حالیہ بارشوں سے متاثر ہوئے اور ان کی کہانی شمع سے ملتی جلتی ہے کیونکہ گوادر کے زیادہ تر لوگ ایسی تباہی کی توقع نہیں کر رہے تھے۔
گوادر میں ویسے پانی کا بحران رہتا ہے اور گرمیوں میں پانی کا بحران شدت اختیار کر جاتا ہے مگر حالیہ بارشوں نے شہر میں ہر چیز کو ملیامیٹ کر دیا، ہزاروں لوگ متاثر ہوئے اور کئی بے گھر ہوئے ہیں۔ لوگوں کے مال مویشی سیلابی ریلے میں بہہ گئے اور دیہی علاقوں میں کسانوں کے بند ٹوٹ گئے۔ یہ سب گوادر اور گرد و نواح کے شہریوں کے لیے غیر متوقع تھا کیونکہ لوگ یہ نہیں سوچ رہے تھے کہ بارشیں ایسے برسیں گی کہ سب کچھ ملیامیٹ ہو جائے گا۔
کوہ باتیل پہاڑی کے دامن میں واقع گوادر ایک جزیرہ نما شہر ہے جو تین اطراف سے سمندر میں گھرا ہوا ہے۔ گوادر میں حالیہ ترقیاتی منصوبوں سے پہلے پانی قدرتی راستوں سے سمندر میں گرتا تھا اور شہر محفوظ رہتا تھا۔ حالیہ ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے گوادر میں پانی کے قدرتی راستے بلاک کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے پانی گھروں کے اندر جمع ہونے لگا ہے۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے گوادر میں 450 گھر مکمل تباہ ہو گئے ہیں جبکہ 8200 گھروں اور عمارات کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔
بارشوں کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف گوادر کے دورے پر پہنچ گئے۔ وزیر اعظم پاکستان نے اس دوران گوادر میں بارش سے متاثرہ لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن کے گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں، ان کو 7 لاکھ 50 ہزار جبکہ جن کے گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے، ان کو 3 لاکھ 50 ہزار روپے دیے جائیں گے۔ بارشوں کی وجہ سے جاں بحق لوگوں کے لواحقین کو 20 لاکھ جبکہ زخمیوں کو 5 لاکھ فی کس دیے جائیں گے۔
میگا پراجیکٹس میں منصوبہ بندی کا فقدان
گوادر شہر کی موجودہ آبادی 52 ہزار کے قریب ہے جن میں سے زیادہ تر لوگ پرانی آبادی میں رہائش پذیر ہیں۔ گوادر کے مقامی سیاسی و سماجی حلقے کہتے ہیں کہ گوادر میں بڑے بڑے میگا منصوبے ( گوادر میرین ڈرائیو، گوادر ویسٹ بے ایکسپریس وے، جو کہ گوادر پورٹ کو مکران کوسٹل ہائی وے سے ملاتا ہے) بنائے گئے ہیں اور پائیدار منصوبہ بندی کے بغیر ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا جس کی وجہ سے پانی کے قدرتی راستے بند ہونے کی وجہ سے بارشوں کا پانی گھروں کے اندر جمع ہو گیا۔
گوادر سے تعلق رکھنے والے ماہر ارضیات پذیر بلوچ کہتے ہیں کہ گوادر شہر اور اس کے قریبی علاقے ایک نشیبی ساحلی پٹی پر واقع ہیں اور بعض علاقے سطح سمندر سے بھی نیچے ہیں۔ ان کے مطابق منصوبہ بندی میں فقدان کی وجہ سے اور قدرتی راستوں کو تبدیل کرنے سے سیلابی ریلے آبادی کے اندر داخل ہو گئے جبکہ سڑکیں شہری آبادی سے اوپری سطح پر بنائی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ ڈرینج اور سیوریج سسٹم بھی ناکارہ یا نہ ہونے کے برابر ہے۔
مشرقی اور مغربی ہائی وے کی تعمیر
گوادر شہر کے مشرق اور مغرب میں دو بڑی شاہراہیں تعمیر کی گئی ہیں، گوادر میرین ڈرائیو اور ویسٹ بے ایکسپریس وے جو کہ گوادر پورٹ کو مکران کوسٹل ہائی وے سے ملاتی ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان بڑی شاہراہوں کی تعمیر سے چونکہ شہر کا لیول ان سڑکوں سے نیچے ہے جس کی وجہ سے بارشوں کا پانی سمندر میں گرنے کی بجائے شہر کے اندر جمع ہو گیا جو کہ اربن فلڈنگ کا باعث بنا۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
کلائمیٹ چینج ایک اہم وجہ
گوادر سمیت بلوچستان کے ساحلی علاقے چونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں اور اس کے اثرات بھی وقتاً فوقتاً نمودار ہوتے رہتے ہیں۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے صحافی جاوید بلوچ ایک مقامی میڈیا آؤٹ لیٹ 'وائس آف گوادر' کے بانی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات کی وجہ سے گوادر ڈوب گیا۔ ان کے خیال میں گوادر میں ڈرینج اور سیوریج سسٹم کا فقدان ہے۔ تعمیرات میں تیزی کے ساتھ اضافہ کی وجہ سے پانی کے قدرتی راستے بند ہو گئے ہیں جس کے باعث سیلابی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے جب بارشیں ہوتی تھیں تو کوہ باتیل سے آنے والا پانی سمندر کے اندر گرتا تھا اور اب چونکہ یہ راستے بند کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے اب بارشوں کا پانی آبادی کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر متوقع طور پر زیادہ بارشیں ہوئی ہیں جو کہ سیلاب کا باعث بنی ہیں۔ محمکہ موسمیات کے مطابق 28 اور 29 فروری کو گوادر میں 188 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سطح سمندر میں اضافہ گوادر سمیت بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے لئے آنے والے دنوں میں خطرے کی گھنٹی ہے۔ پذیر بلوچ کے مطابق سطح سمندر میں اضافہ، شہر کی ارضیات، ٹوپوگرافی اور اربنائزیشن کی وجہ سے پانی کے ٹیبل میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ حالیہ بارشوں کے بعد جب ہم اپنے گھروں سے پانی نکالتے تو صبح ہوتے ہی گھروں کے اندر پھر پانی جمع ہو جاتا، کیونکہ واٹر ٹیبل خطرناک حد تک اوپر آ گیا ہے۔
حالیہ بارشوں سے گوادر کے علاقے ملا بند، ملا فاضل چوک، ٹی ٹی سی کالونی، ہسپتال چوک سمیت میر لعل بخش وارڈ اور دیگر علاقوں میں زیادہ پانی جمع ہو گیا کیونکہ بڑی شاہراہوں کی تعمیرات کے بعد یہ علاقے سطح سمندر سے نیچے آ گئے ہیں۔
جب اس حوالے سے ہم نے بارشوں کے ساڑھے تین ماہ بعد متاثرین سے رابطہ کیا تو متاثرین کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے اعلانات کے مطابق کچھ متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کیا گیا مگر زیادہ تر متاثرین کے نقصانات کا اب تک ازالہ نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب گوادر کی سیاسی پارٹیوں کا مؤقف ہے کہ صوبائی مینجمنٹ اتھارٹی نے متاثرین کی تعداد کو کم ظاہر کیا ہے جبکہ حالیہ طوفانی بارشوں سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے تھے۔ اس حوالے سے بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری سعید فیض نے پریس کانفرنس بھی کی تھی اور صوبائی حکومت کے اقدامات سے وہ ناخوش نظر آئے تھے۔
حالیہ بارشوں سے گوادر کی تحصیل جیوانی میں بھی ماہی گیروں کی سینکڑوں کشتیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تھیں۔
گوادر کو آفت زدہ قرار دیا گیا مگر عمل درآمد نہیں ہوا
صوبائی حکومت کی جانب سے گوادر کو آفت زدہ قرار دیا گیا مگر اس کے باوجود کوئی نوٹیفکیشن کا اجرا ہوا اور نا ہی متاثرین کے یوٹیلیٹی بلز معاف کیے گئے۔ اس کے علاوہ انہیں وہ سہولتیں بھی نہیں دی گئیں جو ایک آفت زدہ علاقے کو دی جاتی ہیں۔
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا مؤقف
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان حفیظ دشتی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ 2019 سے پہلے گوادر کی پرانی آبادی چونکہ گوادر ماسٹر پلان کا حصہ نہیں تھی، اس لیے ادارہ ترقیات نے کام نہیں کیا ہے اور جب 2019 میں ادارہ ترقیات کو گوادر کی پرانی آبادی میں کام کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی تو ادارہ کے ترقیاتی منصوبے جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں میں گوادر کے جن علاقوں میں پانی جمع ہوا ہے وہ ادارہ ترقیات گوادر سے منسلک نہیں تھے۔
انہوں نے ادارہ ترقیات گوادر کے مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے بتایا کہ اب تک ادارے نے گوادر اولڈ سٹی میں 30 کلومیٹر سیوریج لائن اور 30 فیصد ڈرینج سسٹم پر کام کیا ہے اور جب یہ منصوبے 100 فیصد مکمل ہوں گے تو گوادر کی پرانی آبادی میں بارشوں کا پانی جمع نہیں ہو گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گوادر شہر کے جغرافیہ اور ارضیات پر تحقیق کر کے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے اور سیلاب کے خطرے کو کم کرنے کے لیے مؤثر ڈرینج سسٹم اور سیوریج نظام بنایا جائے تا کہ بارشوں کے بعد پانی شہر میں نہ جمع ہو سکے۔
پذیر بلوچ تجویز دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سطح سمندر میں اضافہ، شہر میں واٹر ٹیبل میں اضافہ سمیت شہر کے جغرافیہ اور ارضیات کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ڈیٹا مستقبل میں بنیادی ڈھانچوں کے لئے پالیسی بنانے میں کام آئے گا جس سے اداروں کو گوادر میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے اور تعمیرات کرنے میں مدد ملے گا۔