پچھلے پندرہ دنوں سے یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت جن ستونوں پر کھڑی تھی وہ لرزنے لگے ہیں۔ ان ستونوں کی حالت کے بارے سب کچھ جاننے والے کاری گر اپنے رندے،ہتھوڑی چھینیاں تیز تر کرتے نظر آرہے ہیں تو کاروبار سیاست کے کھلاڑی بھی پر اسرار انداز میں جانی پہنچانی نیٹ پریکٹسز کرتے پائے جا رہے ہیں۔ اس ہل چل کا تازہ ترین مرحلہ ویسے تو لاک ڈاؤن پر طاقت کے مراکز کے درمیان اختلافات سے شروع ہوا تھا لیکن قاضی فائز عیسیٰ کیس، جہانگیر ترین اور شوگر تحقیقاتی رپورٹ اور اب شہباز شریف کو زبردستی نیب کے ہاتھوں اندر کروانے کی کوششوں کے بعد اس مرحلہ میں ابال آتا نظر آرہا ہے۔ جس کے بارے میں ہونے والی قیاس آرئیوں کے پلڑے میں آرمی چیف جنر باجوہ، چینی سفیر، سابق آرمی چیف راحیل شریف اور دیگر سپاہ کے سالاروں کے خیریت دریافت کرتے ٹیلی فونز نے وزن ڈالا ہے۔
میڈیا میں ہر طرف عمران خان کے فیل ہوجانے پر بین ڈل رہے ہیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ بد ترین حکومت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومتوں کے زوال کی پیشگی منادی کرنے والے صحافی سہیل وڑائچ مسلسل عمران خان کی رخصتی کے اشارے دے رہے ہیں۔ تازہ ترین طور پر بھی انہی کی ایک صحافتی کاوش نے ملک کی سیاست اور صحافت میں ہل چل مچا دی ہے۔
اور یہ ہے وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے تہلکہ خیز انٹرویو۔ اس انٹرویو میں میڈیا اور سیاسی کاروبار کے اترتے چڑھتے بھاؤ کے ماہرین کے لئے بہت سا سامان دلچسپی پیدا کیا ہے جس کا خوب چرچا ہے۔ مثلاً انہوں نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کی ہے کہ جہانگیر ترین کو پی ٹی آئی کے دوسرے ہیوی ویٹ اسد عمر نے نکلوایا ہے۔ جب کہ جہانگیر ترین نے اسد عمر کو اپریل 2019 میں وزیر خزانہ کی کرسی سے فارغ کروایا تھا۔ جبکہ شاہ محمود قریشی بھی اس تکے(ٹرائکا) کی لڑائی کا حصہ ہیں۔ لیکن جس چیز کو مجموعی طور پر میڈیا کی جانب سے نظر انداز کر دیا گیا وہ یہ ہے کہ فواد چوہدری نے انٹرویو میں عمران خان کے بارے میں عام طور پر یقین کیئے جانے والے جملہ اوصاف پر چوٹ کی ہے۔
مثلاً کہا جاتا ہے کہ خان صاحب تو بہت اچھے ہیں مگر انکو ٹیم اچھی نہیں ملی۔ لیکن جب اس انٹرویو میں ان سے سہیل وڑائچ کی جانب سے پوچھا گیا کہ کیا عمران خان ایک اچھی ٹیم نہیں بنا سکے تو فواد چوہدری نے اپنے مخصوص انداز میں بے زاری سے کہا ٹیم تو لیڈر نے ہی بنانی ہوتی ہے۔ انہیں نہ جانے کس نے مشورہ دیا کہ کمزور بندے لگاؤ آپکی ڈکٹیشن مانیں گے۔ یہ مکمل طور پر غلط پالیسی ہے۔ اور ہم ایک عام حکومت کی طرح چل رہے ہیں۔ عمران خان اس سے بہت زیادہ ہیں جو وہ اس وقت پرفارم کر رہے ہیں۔
انہوں نے عمران خان کے بطور لیڈر سب سے زیادہ بیچے جانے والے بیانیئے پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کوئی صرف یہ کہے کہ آپ جو سوچ سکتے ہیں وہ کر بھی سکتے ہیں یا کسی کے پاس خیال ہونے سے کام بھی ہو جاتے ہیں تو ایسا نہیں ہوتا۔ اس کے لئے آپ کو بہترین ہیومن ریسورس کی ضرورت ہے۔ اچھی ٹیم کے بغیر آپ اپنا خیال عملی طور پر نافذ نہیں کرسکتے۔
پھر ایک اور موقع پر فواد چوہدری نے باتوں باتوں میں بتا دیا کہ حکومت کی بنیادیں سرک رہی ہیں اور ان کے پاس وقت کم ہے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ کسی بھی حکومت کے پاس کھڑے ہونے کے لئے دو ٹانگیں ہوتی ہیں ایک گورننس اور ایک سیاست، اب ہم پرفارم نہیں کر سکے اور اس کا ایک وقت ہوتا ہے پھر چیزیں سرکنا شروع ہو جاتی ہیں اور وزیر اعظم کو بھی اس بات کا علم ہے اور انہوں نے وزرا کو اس حوالے سے بتایا ہے کہ انکے پاس صرف 6 مہینے ہیں۔ یعنی اسکے بعد انکی مہلت ختم ہوجائے گی۔
چیزیں سرکنا شروع ہوں گی۔ جب کہ ساتھ ہی فواد چوہدری نے ایک اور سوال کے جواب کے ابتدایئے میں یہ بھی واضح کردیا کہ انکے فوج کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ اب بس ناظرین کو یہی یاد کروانا باقی ہے کہ فواد چوہدری وفاقی وزیر بننے کی بجائے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی خواہش بھی کر چکے ہیں۔ اور پھر یہ بھی مانتے ہیں کہ پارٹیوں سے سیاسی وابستگی ہمیشہ مفاد پر ہوتی ہے۔