جھوٹا بیانیہ بنایا گیا، فوج کو ناموں سے پکارا گیا، صبر کی ایک حد ہے؛ جنرل باجوہ پھٹ پڑے

جھوٹا بیانیہ بنایا گیا، فوج کو ناموں سے پکارا گیا، صبر کی ایک حد ہے؛ جنرل باجوہ پھٹ پڑے
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ  نے کہا کہ فوج نے غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ پچھلے سال فروری میں کیا۔ جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان پیدا کیا گیا اور اب اسی بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔

جی ایچ کیو میں یوم دفاع و شہدا کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد کیا گیا جو سیلاب کے باعث ملتوی کی گئی تھی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے خطاب کیا۔

اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ وہ بطور آرمی چیف آخری خطاب کر رہے ہیں کیونکہ  29 نومبر کو ان کے 44 سالہ فوجی کیریئر کا اختتام ہو رہا ہے۔

آرمی چیف نے کہا کہ انہیں فخر ہے کہ وہ 6 سال اس فوج کے سپہ سالار رہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج کا بنیادی کام ملک کی جغرافیائی حدود کی حفاظت کرنا ہے لیکن پاک فوج ہمیشہ اپنی استطاعت سے بڑھ کر اپنی قوم کی خدمت میں پیش پیش رہتی ہے۔ ریکوڈک کا معاملہ ہو یا کارکے کا جرمانہ، فیٹف کے نقصان ہوں یا ملک کو وائٹ لسٹ سے ملانا یا فاٹا کا انضمام کرنا، بارڈر پر باڑ لگانا ہو یا قطر سے سستی گیس مہیا کرانا یا دوست ملکوں سے قرض کا اجرا کرانا ہو، کووڈ کا مقابلہ یا ٹڈی دل کا خاتمہ یا پھر سیلاب کے دوران امدادی کارروائی ہو، فوج  نے ہمیشہ اپنے مینڈیٹ سے بڑھ کر قوم کی خدمت کی ہے اور انشاء اللہ کرتی رہے گی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے افسران اور جوانوں سے بات چیت کرتے ہوئے سیلابی صورت حال کے دوران صوبائی حکومت کی مدد اور امدادی کاموں پر ان کے کردار کو سراہا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی بھارت فوج کرتی ہے لیکن ان کے عوام کبھی اپنی فوج پر تنقید نہیں کرتے۔ اس کے برعکس افواج پاکستان جو کہ دن رات ملک و قوم کے لئے جدوجہد میں کوشاں رہتی ہے وہ اکثر عوامی تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ میرے خیال میں اس کی ایک وجہ 70 سال سے فوج کی سیاست میں کسی نہ کسی صورت میں مداخلت ہے جو کہ غیر آئینی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی لئے گزشتہ سال فروری میں بہت سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج کسی بھی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اور اس بات کی یقین دہانی بھی کراتا ہوں کہ فوج اپنے اس فیصلے پر سختی سے کاربند ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ تاہم اس آئینی عمل کا خیرمقدم کرنے کی بجائے کئی حلقوں نے فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر بہت غیر مناسب اور غیرشائستہ زبان کا استعمال کیا۔ فوج پر تنقید عوام اور سیاسی پارٹیوں کا حق ہے لیکن الفاظ کے چناؤ اور استعمال میں احتیاط برتنی چاہئیے۔

آرمی چیف نے بغیر نام لئے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور اب اسی جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔ سینیئر فوجی قیادت کو غیر مناسب القابات سے پکارا گیا۔ میں آپ کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ فوج کی قیادت کچھ بھی کر سکتی ہے لیکن ملک کے مفاد کے خلاف نہیں جا سکتی۔

بیرونی سازش کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باوجوہ نے کہ اکہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ملک میں بیرونی سازش ہو اور مسلح افواج ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں۔ یہ ناصرف ناممکن ہے بلکہ گناہ کبیرہ بھی ہے۔

آرمی چیف نے مزید کہا کہ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ وہ فوج اور عوام میں دراڑ ڈال دیں گے، ان کو ہمیشہ ناکامی کا سامنا ہو گا۔ فوج کے پاس اس نامناسب یلغار کا جواب دینے کے لئے بہت سے مواقع اور وسائل موجود تھے تاہم فوج نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کے لئے حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی بھی منفی بیان دینے سے اجتناب کیا۔ لیکن یہ بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہئیے کہ اس صبر کی بھی ایک حد ہے۔ میں اپنے اور افواج پاکستان کے خلاف اس جارحانہ رویے کو درگزر کر کے آگے بڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ پاکستان سب سے افضل ہے۔ فوج نے تو اپنا کتھارسس کرنا شروع کر دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کریں گی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہر ادارے، سیاسی پارٹی اور سول سوسائٹی سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں، ہمیں ان غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئیے اور آگے بڑھنا چاہئیے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان آج سنگین معاشی مشکلات کا شکار ہے اور کوئی بھی ایک پارٹی پاکستان کو اس معاشی بحران سے نہیں نکال سکتی۔ اس کے لئے سیاسی استحکام لازم ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اپنی ذاتی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں، آگے بڑھیں اور پاکستان کو اس بحران سے نکالیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں جمہوریت کی روح کو سمجھتے ہوئے اور عدم برداشت کی فضا کو ختم کرتے ہوئے پاکستان میں ایک سچا جمہوری کلچر اپنانا ہے۔

2018 کے عام انتخابات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ 2018 کے عام انتخابات میں بعض پارٹیوں نے آر ٹی ایس کے بیٹھنے کو بہانہ بنا کر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا اور 2022 میں اعتماد کا ووٹ نہ ملنے پر ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو امپورٹڈ کا لقب دیا۔ ہمیں اس رویے کو رد کرنا ہوگا۔ ہار جیت سیاست کا حصہ ہے، ہر پارٹی کو اپنی فتح اور شکست کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا تاکہ اگلے الیکشن میں ایک امپورٹڈ یا سلیکٹڈ گورنمنٹ کے بجائے الیکٹڈ گورنمنٹ آئے۔ جمہوریت حوصلے، برداشت اور رائے عامہ کے احترام کا نام ہے۔ اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں عدم برداشت اور 'میں نہ مانوں' کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔

آرمی چیف نے کہا کہ میں آج ایک ایسے موضوع پر بھی بات کرنا چاہتا ہوں جس پر عموماً لوگ بات کرنے سے گریز کرتے ہیں اور یہ بات 1971 میں ہماری فوج کی سابقہ مشرقی پاکستان میں کارکردگی سے متعلق ہے۔ میں یہاں پر کچھ حقائق درست کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے سانحہ مشرقی پاکستان فوجی نہیں بلکہ ایک سیاسی ناکامی تھی۔ لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں، صرف 34 ہزار تھی۔ باقی لوگ مختلف حکومتی شعبوں کے تھے اور ان 34 ہزار لوگوں کا مقابلہ ڈھائی لاکھ انڈین آرمی، دو لاکھ تربیت یافتہ مکتی باہنی سے تھا لیکن اس کے باوجود ہماری فوج بہت بہادری سے لڑی اور بے مثال قربانیاں پیش کیں جس کا اعتراف خود سابق بھارتی آرمی چیف فیلڈ مارشل مانیکشا نے بھی کیا۔ ان بہادر غازیوں اور شہیدوں کی قربانیوں کا آج تک قوم نے اعتراف نہیں کیا جو کہ ایک بہت بڑی زیادتی ہے۔

جنرل باجوہ نے کہا کہ ہمارے لئے پاکستان نعمت خداوندی ہے، ہمارا وجود اس کی سلامتی اور بقا سے وابستہ ہے، اس کی آزادی اور استحکام کے لئے شہدا نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ میں آج اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تمام غازیوں اور شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور پیش کرتا رہوں گا۔ وہ ہمارے ہیرو ہیں اور قوم کو ان پر فخر ہونا چاہئیے۔ شہدا کے لواحقین کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس تقریب میں آکر اس تقریب کو رونق بخشی۔