بلوچستان میں جاری ظلم و بربریت اور اپنی بقا کے لیے بلوچ کئی دہائیوں سے جدوجہد کے ہر حربے کو استعمال کرتے آرہے ہیں، بلوچستان کو 1948میں پاکستان سے الحاق تو کردیا گیا لیکن آج تک بلوچ متعدد بار مختلف رہنماؤں کی قیادت میں مزاحمتی جدوجہد کاراستہ اختیار کرچکے ہیں۔
اس وقت بلوچستان میں حقوق اور وجود کی جدوجہد میں دو واضع نظریات(سکول آف تھاٹ ) میدان سیاست میں اپنے اپنے پروگرامز اورطریقہ جدوجہد کرتے آرہے ہیں۔ ایک وہ سوچ ہے جس کا موقف انتہائی سخت گیر ہے، انہوں نے بلوچستان کے مسئلے کو عالمی سطع پہنچانے کے لیے مزاحمتی جدوجہد کا راستہ اختیار کرکے پہاڑوں کو اپنا مسکن چُنا ہے۔ دوسری سوچ سر فیس میں فیڈریشن کے اندررہتے ہوئے بلوچ قومی سوال کے لیے آواز بلند کرنے اور اپنے حقوق اور وسائل پر پہلا حق بلوچ کے تحت عوامی جمہوری جدوجہد پریقین رکھتی ہے۔
بلوچستان میں موجودہ علیحدگی کی تحریک دوسری دہائی میں داخل ہوچکی ہے ، بلوچستان میں نواب اکبر خان بگٹی کو شہیدکردیاگیا تو اُسکے ردعمل میں پورے بلوچستان میں ایک بار پھر ایک نظریاتی سوچ جنم لینا شروع ہو گئی ۔ اُسوقت کے اکثریتی سیاسی شعور رکھنے والے نوجوان جو کہ طلبا سیاست سے منسلک تھے، انہوں نے اپنے دائرے کار کو وسیع کرتے ہوئے بلوچ قومی جدوجہد میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے کی ٹھان لی اور جرت مندی کیساتھ جدوجہد کے میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔
طلبا سیاست میں بھی دو نظریات کی سوچ عیاں ہونے لگی، اس کے آثار اس وقت سامنے آئے جب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن( بی ایس او) کے ساتھیوں نے ہنگامی بنیادوں پر بی ایس او کے انضمامی عمل کو تیز کرتے ہوئے ذہن سازی کا عمل تیز کردیا ۔ عجلت سےلیے گئے فیصلے بی ایس او کو مزید تقسیم کرنے کی سبب بنے اور یوں بی ایس او ایک بار پھر تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئی۔
بلوچستان میں یہ وہ زمانہ تھا جب مار ڈالو اور پھینک دو کی پالیسی نہیں اپنائی گئی تھی، ہر نوجوان کے جنون و جذبے سے انکے فکری حوصلے روز بروز بلند ہوتے ہوئے نظر آرہے تھے، لگ یوں رہا تھا کہ یہی نسل آزادی کی خوشی منانے والوں میں شامل ہوگی مگر اس رفتار کو کسی کی نظر لگ گئی یا غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام کے اندر مقبولیت میں کمی آنا شروع ہوگئی۔ سیاسی محاذمیں طلبا سیاست میں مایوسی کی ایک لہر پھر دوڑ آئی ۔ طلبا سیاست اس لیے بحران میں آگئی کہ وہ اپنی پالیسیوں میں چیزوں کو طےنہیں کر پار ہے تھے ، اُنکا خیال و ماننا تھا کہ طلبہ یا طلبہ تنظیمیں قومی تحریکوں کے اندر “کُل” کا کردار ادا کرسکتی ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
طلبا تنظیمیں قومی سیاست میں ایک کلیدی کردار ضرور ادا کرسکتی ہیں مگر کل کردار ادا نہیں کر سکتیں، طلبہ بیک وقت اپنے ناتواں کندھوں پہ بھاری بُوجھ اُٹھا کر اس سفر میں بے سرو سامانی کے عالم میں رواں دواں تھے۔ وہ ایک نظریاتی ماحول بھی تھا اورجذباتی بھی مگر بدبختی یہ تھی کہ اُس میں جذبات اور ہٹ دھرمی زیادہ تھی اس لیے ان دو دہائیوں میں جس ہدف کو اُنہوں نےحاصل کرنا تھا وہ نہ کرسکے۔ اسکی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ جذبات سے زیادہ کام لیتے تھے اور اپنے سیاسی کارکنوں کی مخبری کے ناموں سے ہر ہدف بناتے تھے اس سے عام لوگوں کے دلوں میں ہمدردیاں کم ہوتی گئیں اور اندرونی طورپر بھی خلفشارکے شکار ہوگئے۔
بلوچ اس خطے میں صدیوں سے قربانی اس لیے دیتے آرہے ہیں کہ شاید ایک دن انکی قربانیاں ضرور رنگ لائےگی۔ مگر اس وقت جہاں تک میں محسوس کررہا ہوں اور روز مرہ کے حالات و واقعات پر اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ گزشتہ دو دہائیوں کی قربانیوں کے آثار اب نظر آرہے ہیں اب یہ جدوجہد ایک فکری و شعوری مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔ اس کی مثال ہم گزشتہ کئی دنوں کے واقعات جو رونما ہوئے اور ایک کال پر ہزاروں نوجوان ، آل پارٹیز ، سول سوسائٹی بلا تفریق ایک دوسرے کیساتھ شانہ بشانہ مل کر دن رات فدا چوک سے گورنر ہاؤس کا سفر طے کر کے دھرنے پر بھیٹے ہیں اور تمام مکاتب فکر ہمدردی کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہاں یہ اندازہ بھی لگا لیا جاسکتا ہے کہ شعوری طور پر اب بلوچ نے اپنے اُوپر ظلم کے خلاف جدوجہد کی حکمت عملیاں تبدیل کر رکھی ہیں اب جو بھی ہوگا اسکا ردعمل دھرنے کی صورت میں سامنے آئے گا۔
"جس طرح آخری وقت شہید نواب اکبر خان بگٹی نے کہا کہ اب ملاقات پہاڑوں پہ ہوگی، اسی طرح اب عوام اپنی حکمت عملی سے یہی تاثر دے رہے ہیں کہ اب ملاقات شہید فدا چوک پہ دھرنے کی شکل میں ہوگی"
میں سمجھتا ہوں جتنی فکری تربیت گزشتہ دس بیس سالوں میں نہیں ہوئی ہے اتنی ہی تیزی کیساتھ اس طرح کے حالات نے نوجوانوں کو باشعور بنا دیا ہے اور اب وہ ہر حالات میں ڈٹ کے کھڑا ہونے کی حوصلہ رکھتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو حکمرانوں کے لیے مشکلات زیادہ ہوں گے اور یہ تحریک عام لوگوں کو باشعور بنادے گی۔ اب کے بلوچوں کی یہ حکمت عملی زیادہ عوام کو زیادہ متحرک کر کے ہمدردیاں پیدا کرے گی۔ مگر اس کا ایک پہلو ہرگز نظر اندازنہیں کرنا چائیے وہ یہ کہ اس وقت ان نوجوانوں کو انتہا پسندی اور ایک بار پھر جزباتی ماحول سے بچانے کے لیے ایک قیادت کی اشدضرورت ہے جو کہ انہیں وقت اور حالات کے مطابق انکی رہبری کر سکے۔
اگر صبر و تحمل والی پالیسی نہ اپنائی گئی تو اسکا بھی وہی نتیجہ ہوگا جو کہ ہم دیکھتے آرہے ہیں۔ میری ناقص رائے یہی ہے کہ اس جدوجہد کے اس حصے میں یہی بہت ہے کہ بلوچستان کے نوجوان شعوری وفکری طور پر سوال کرتے ہیں اور غلط عمل کے خلاف اُٹھ کڑے ہورہے ہیں، یہی ایک فکری کامیابی ہے۔ اب بلوچستان کی بیٹیاں اور مائیں اپنے جوان لخت جگر کو کندھا دیکر دفناتے نہیں بلکہ ان کے قتل کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کریمہ بلوچ کے نماز جنازہ میں بھی خواتین نے شرکت کی تھی ، اسکی مذہبی پہلو پہ میں بات کروں گا مگر اسکے اثرات بلوچ قوم پرستی کی سیاست پہ اس لحاظ سے مرتب ہوں گے کہ خواتین کی وجہ سے ہر مرد کا حوصلہ زیادہ بلند ہوگا۔
یہی میر غوث بخش بزنجو نےبھی کہا تھا” کہ آج کےنوجوان کل میری سیاست کے وارث ہوں گے “۔ اور میرا بھی یہی یقین ہے کہ یہی نسل آگے چل کر بلوچستان اور بلوچ قوم کو ایک روشن مستقبل دے سکتی ہے۔
گہرام اسلم بلوچ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے میڈیا اینڈ جرنلزم سٹڈیز میں ماسٹرز کیا اور تحقیقاتی صحافی ہیں۔