پاکستان کا متوسط شہری طبقہ عمران خان کا کیوں دیوانہ ہے؟

ایسا نہیں ہے کہ یہ اپر مڈل کلاس کہیں عدم سے وجود میں آ گئی ہے۔ یہ دہائیوں کی ذہن سازی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ دنیا کی پہلی کلاس ہے جو کسی ٹرانس میں آئی ہوئی ہے۔ جرمن اپر مڈل کلاس ہٹلر کے ساتھ اسی قسم کے سپر فیشل رومانس کی قیمت بھر چکی ہے۔

پاکستان کا متوسط شہری طبقہ عمران خان کا کیوں دیوانہ ہے؟

ہمیں نہایت سنجیدگی سے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرنی چاہئیے کہ عمران خان کی سپورٹ بیس کیا ہے اور یہ کیسے بنی ہے۔ اس کا آسان مطلب یہ ہے کہ ہمیں اربن مڈل کلاس کی نفسیات کا جائزہ لینا ہو گا۔

کسی نے لکھا تھا کہ کتنا ظلم ہے کہ حماد صافی کے 45 لاکھ فالوورز ہیں جبکہ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے صرف 6 ہزار۔ گویا ایک چھوٹا سا بچہ جو اربن مڈل کلاس کی نفسیات سے واقف ہے وہ 45 لاکھ فالوورز لے اڑتا ہے جبکہ ایک ایسا شخص جو امریکی یونیورسٹی کا پوسٹ گریجویٹ ہے، اس کو صرف 6 ہزار سامعین ہی ملتے ہیں۔ ڈان نیوز کے پروگرام ' ذرا ہٹ کے' کے اوسط ویوورز 6 ہزار جبکہ عمران ریاض خان کے 4 لاکھ 52 ہزار ہوتے ہیں۔

میرا تعلق اسی اربن مڈل کلاس سے ہے۔ اس لئے ایک اور مثال سے بات کو واضح کرتا ہوں۔

میرے میٹرک کے 20 کلاس فیلوز کا ایک واٹس ایپ گروپ ہے اور ان میں سے 16 عمران خان لورز ہیں۔ میں نے ایک دن گروپ میں سوال پوچھا کہ کرپشن ختم کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ جواب آیا کہ 7 سے 10 لوگوں کو چوراہے پر پھانسی دے دیں تو کرپشن رک جائے گی۔ یہ فل بنچ کا فیصلہ تھا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ جتنا کیش کا استعمال گھٹائیں گے، اسی قدر کرپشن کم ہو گی اور ہمارے ہاں ایف اے ٹی ایف کے بعد بے نامی اکاؤنٹس ختم ہوئے اور Know Your Customer آنے سے بھی کرپشن کم ہو گی۔ اسی طرح Raast کے استعمال سے بھی کرپشن میں کمی آئے گی۔

ان میں سے کسی نے میری تائید نہیں کی کیونکہ ان کو ایک آسان حل دستیاب تھا لہٰذا سوچنے سمجھنے کی لعنت سے کیوں دوچار ہوں؟

اپنے MBA کے دوستوں کے گروپ میں سوال کیا کہ یار سب سے اچھا اسلامی شہد کہاں سے ملے گا؟ سب نے حسب توفیق نشاندہی کی لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ شہد اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسلامی ٹچ سے انہیں لگتا ہے کہ چیز پوتر سی ہو گئی ہے۔

اپنے گریجویشن کے کلاس فیلوز سے پوچھا کہ پاکستان ترقی کیوں نہیں کرتا تو انہوں نے عمران خان کے علاوہ سب سیاست دانوں کو گالیاں دیں۔ جب میں نے پوچھا کہ عوام ان کو ووٹ کیوں دیتے ہیں تو جواب آیا کہ عوام جاہل ہیں۔ کسی ایک میں بھی کسی تجزیے کی صلاحیت نہیں تھی۔

یہ سب سپر فیشلی چیزوں کو دیکھتے ہیں اور علت و معلول سے ناواقف ہیں۔ ان کی کمزوریاں اسلام، مدینے کی ریاست، قومی حمیت، اپنے معاشرے کی مشرقی روایات اور مغربی معاشرے کے فاسد ہونے کا اعلان جیسی ہیں۔

میں کسی سے پوچھتا ہوں کہ کیا عمران خان کے دور میں ہم بھکاری نہیں تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہونے ہی والے تھے۔ ان کو اعداد و شمار سے کوئی غرض نہیں ہے۔

یہ فقط عمران خان کا معاملہ نہیں ہے بلکہ طاہر القادری جنہوں نے عالم رویا میں 15 سال داتا گنج بخش سے تعلیم حاصل کی، انہیں سننے والے اور سر دھننے والے بھی اسی اربن مڈل کلاس کے لوگ ہیں۔ 1990 میں ابدالی مسجد ملتان میں ایک صاحب مجھے مولانا طارق جمیل کا بیان سننے کے لئے لے گئے اور میں نے ایک گھنٹہ دس منٹ تک حضورﷺ کی بکریوں اور اونٹنیوں کے نام سنے اور حاضرین کی طرف دیکھا تو پن ڈراپ سائلنس تھا جبکہ اس علم کا ایک فیصد بھی عملی زندگی سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ تو کیا طارق جمیل کے معتقدین عمران خان سے تعداد میں کم ہیں؟ لیکن اربن مڈل کلاس کی سپر فیشل سوچ کی تسکین ہو جاتی ہے ان کو سن کر کیونکہ وہ تجزیہ کرنے کی تکلیف سے گزرنا ہی نہیں چاہتے۔

اربن مڈل کلاس کے ہیروز دیکھیں؛ عامر لیاقت، حماد صافی، طارق جمیل، عمران خان۔

جب عمران خان کہتا ہے کہ 15 دن میں کرپشن ختم کر دوں گا تو انہیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ کرپشن کاز ہے یا ایفیکٹ اور کیا کرپشن 15 دن میں ختم ہو بھی سکتی ہے؟

جب عمران خان سائیکل پر جانے کی بات کرتا ہے تو انہیں لگتا ہے کہ مسئلہ حل ہو گیا۔ انہیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ پاکستان میں تین وزرائے اعظم کو سڑک پر مار دیا گیا۔ وہ ڈنمارک اور پاکستان کے حالات کے مابین تفریق کو سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔

انہیں لگتا ہے کہ 17 رکنی کابینہ کافی ہوتی ہے، کیونکہ عمران خان ایسا کہہ رہا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ اپر مڈل کلاس کہیں عدم سے وجود میں آ گئی ہے۔ یہ دہائیوں کی ذہن سازی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ دنیا کی پہلی کلاس ہے جو کسی ٹرانس میں آئی ہوئی ہے۔ جرمن اپر مڈل کلاس ہٹلر کے ساتھ اسی قسم کے سپر فیشل رومانس کی قیمت بھر چکی ہے اور یقینی طور پر حقیقت سے آنکھیں چار کرنے کی ایک قیمت ہوتی ہے۔