سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
70 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جس میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے مگر وہ فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ریلیف دینے پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی، عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے، یہ عدالت متعدد مقدمات میں کہہ چکی ہے کہ مکمل انصاف کرتے ہوئے عدالت کسی تکنیکی اصول کی پابند نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ عام طور پر عدالت یہ کرتی کہ پہلے پی ٹی آئی کی درخواست سماعت کیلئے منظور کرتی پھر ریلیف دیتی، لیکن عدالت اس طریقہ کار میں اس وقت نہیں پڑتی جب عوام کے ووٹ کا تحفظ اور آرٹیکل 17 کی شق دو اور آرٹیکل 19 کا معاملہ ہو، ایسے وقت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے سامنے سنی اتحاد کونسل تھی یا پی ٹی آئی، یا کوئی اور سیاسی جماعت۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ جب عدالت مکمل انصاف کی فراہمی کی آئینی شق 187 کی ذیلی شق ایک کی طرف جاتی ہے تو وہ رائج طریقہ کار یا پریکٹس کے سبب بے یار و مددگار نہیں ہوتی اور اس پر انحصار نہیں کیا جاتا کہ کسی سیاسی جماعت کی درخواست آئی تھی یا نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن میں بڑا سٹیک عوام کا ہوتا ہے، انتخابی تنازعہ بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے، یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے اور ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انہیں ووٹ دیا۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے رویے پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا، حالانکہ اس کا بنیادی کام صاف شفاف انتخابات کرانا ہے، الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے مگر فروری 2024 میں وہ اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔
فیصلے کے مطابق رول 94 آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 سے متصادم ہے، رول 94 مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار سے متعلق ہے، انتخابی رولز الیکشن ایکٹ کے مطابق ہی بنائے جا سکتے ہیں، انتخابی رولز میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود نہ ہو، رول 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت اسے تصور کیا جائے گا جس کے پاس انتخابی نشان ہو۔
فیصلے میں کہا گیا کہ رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے، انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستوں کا نہ دیا جانا الیکشن کمیشن کی طرف سے اضافی سزا ہے، واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیے، انتخابی نشان واپس لیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہو گئے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کرتی تو کنفیوژن پیدا ہی نہ ہوتی، الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکم نامہ میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے، عدالت اور الیکشن کمیشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ انتخابی شیڈول جاری ہو چکا ہے، پارٹی کے اندرونی معاملے پر شہریوں کے ووٹ دینے کے بنیادی حقوق کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلہ نظرثانی میں زیرالتوا ہے اس لئے اس پر رائے نہیں دے سکتے۔
8 ججز نے تفصیلی فیصلے میں دو ججز کے اختلافی نوٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا، جس انداز میں دو ججز نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے۔
یاد رہے 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیا تھا۔