سری لنکا میں مسیحی برادری کے مذہبی تہوار ایسٹر پر دہشت گردی نے ناصرف پوری دنیا کو پریشان کر دیا ہے بلکہ ایک بار پھر مذہبی دہشت گردی کا خطرہ اجاگر ہو گیا ہے۔ یہ بات اب ساری دنیا کو معلوم ہے کہ سری لنکا میں کولمبو اور دوسرے شہروں میں مسیحی برادری کے مذہبی تہوار ایسٹر پر تین گرجا گھروں اور چار ہوٹلوں پر خود کش حملے کئے گئے جن میں تقریباً تین سو افراد مارے گئے اور پانچ سو کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں سے چند کا تعلق مغرب سے بھی ہے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کی ہولناک کارروائی کی بھرپور مذمت کی گئی ہے اور اس کے مختلف پہلوئوں پر دانشور اور تبصرہ نگار روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سری لنکا ایک بہت بڑا جزیرہ ہے جس کی آبادی تقریباً دو کروڑ ہے۔ اگرچہ اکثریت کا مذہب بدھ مت ہے مگر یہاں ہندو، مسلمان اورمسیحی برادری کی ایک بہت بڑی تعداد بھی بستی ہے۔ سری لنکا کا ذکر ہندوئوں کی دیومالائی داستانوں میں بھی ملتا ہے۔ سری لنکا میں اسلام عرب تاجروں کے ذریعے پھیلا (تاریخ دان اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ جہاں اسلام تاجروں کے ذریعے پھیلا اور جہاں حملہ آوروں کے ذریعے پھیلا، وہاں کے مزاج اور رہن سہن اور رویوں میں کیا فرق ہے اور ایسا کیوں ہے؟)
میرا سری لنکا سے پہلا تعلق کب قائم ہوا؟ اب یاد نہیں لیکن جب میں پہلی بار سری لنکا گیا تو عام سڑکوں پرمورچوں اور فوجی اہل کاروں کی موجودگی نے مجھے ضرور حیران کیا۔ اس زمانے میں سری لنکا میں خانہ جنگی جاری تھی۔ سری لنکا بھی ہماری طرح برطانیہ کی ایک کالونی تھا اور اسے ہندوستان کے بعد آزادی نصیب ہوئی مگر اس نے پرامن طور پر آزادی حاصل کی۔ آزادی کے بعد سری لنکا میں جمہوری نظام قائم ہوا۔ خانہ جنگی اور بہت سارے مسائل کے باوجود فوج نے کبھی اقتدار پر قبضہ نہیں کیا جس کے لیے وہاں کے سیاست دان اور فوج یقیناً مبارک باد کی مستحق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سری لنکن حکام دہشت گرد حملوں کے خطرات کے بارے میں آگاہ تھے
سری لنکا میں تاملوں اور بدھ مت کے ماننے والی سنہالی آبادی میں اختلافات بڑھتے گئے اور ایک زمانہ آیا کہ ان دونوں گروہوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ تامل مسئلہ یا آزادی کی جنگ کا تعلق ہندوستان سے بھی ہے کیوں کہ بھارت میں بھی تامل بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ایک زمانے میں تو ہندوستان میں تاملوں کی آزادی کی تحریک بھی بہت زوروں پر تھی مگر بعد میں بھارت سرکار تاملوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے میں کامیاب رہی۔
ہندوستان کی تامل آبادی بلکہ ایک زمانے میں ہندوستان کی سرکار بھی تامل باغیوں کی سرپرستی کرتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1970 میں جب سری لنکا میں عوامی بغاوت ہوئی تو ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات بہت کشیدہ تھے اور بھارت مکتی بانی کی کھل کر حمایت کر رہا تھا مگر سری لنکا میں عوامی بغاوت کو کچلنے کے لئے بھارت اور پاکستان نے اپنے فوجی دستے بھیجے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ ایک زمانے میں بھارت سری لنکا میں تامل باغیوں کی مدد کر رہا تھا اور ہندوستان میں رہنے والے تامل بھی اپنے تامل بھائیوں کی مالی اور اخلاقی امداد کر رہے تھے مگر جب بھارت اپنے اندر تامل مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس کا رویہ بدل گیا اور وہ تامل باغیوں کے خلاف ہو گیا۔ ایک زمانہ آیا کہ راجیو گاندھی نے سری لنکا میں تامل بغاوت کو کچلنے کے لئے ہندوستانی فوج بھیج دی۔ تامل باغیوں نے ان بھارتی فوجیوں کا بہت برا حشر کیا۔ ہندوستان میں بھی سری لنکا میں بھارتی فوجیوں کی موجودگی کی مخالفت میں زبردست اضافہ ہو گیا، دوسری طرف ان فوجیوں کو تامل باغیوں نے زبردست نقصان پہنچایا چناںچہ بھارت کو اپنی فوجیں واپس بلانا پڑیں (راجیو گاندھی کو بھی تامل باغیوں نے ہی قتل کیا)۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ تامل باغیوں نے دہشت گردی کے مختلف طریقے استعمال کیے، پرامن شہریوں کو بم دھماکے سے مارنا یا کسی جگہ دھماکہ خیز مواد رکھنا، حتیٰ کہ ایک موٹر سائیکل بم دھماکے میں وہ سری لنکا کے صدر کو قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے، اسی طرح انہوں نے اپنی فضائی فوج بھی تیار کرلی اور انہوں نے کولمبو ایئرپورٹ پر طیاروں کو بھی تباہ کیا۔ ایک زمانے میں انہوں نے سری لنکا کے وزیر خارجہ کو ٹیلی سکوپ بندوق کے ذریعے ان کے گھر میں قتل کر دیا۔ بہرحال طویل عرصہ تک جاری رہنے والی اس خانہ جنگی میں بالاآخر تامل باغیوں کو شکست فاش ہوئی۔ کہتے ہیں کہ پاکستانی فضایہ نے سری لنکن حکومت کی مدد کی تھی۔
چند ماہ پہلے سری لنکا میں ایک بہت بڑا سیاسی بحران پیدا ہوا جب صدر نے وزیراعظم کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے اپنی مرضی کا وزیر اعظم تعینات کر دیا مگرعدلیہ اور سیاست دانوں نے صدر کے اس غیر جمہوری قدم کو ناکام بنا دیا۔
اب چند روز قبل سری لنکا میں مسیحی برادری کے تہوار ایسٹر کے موقع پر ہونے والے دہشت گردی کے سانحہ کی طرف آتے ہیں..... امریکہ یا مغرب نے کمیونسٹوں کے خلاف جب مذہبی ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوئے۔ مسلمانوں میں بھی دوسرے مذاہب، بالخصوص مسیحی برادری کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی میں سری لنکا کا ایک لڑکا پڑھتا تھا جس کا باپ سری لنکا میں وزیر تھا۔ جب میں پہلی بارسری لنکا گیا تو مجھے لگا کہ سری لنکا ایک طرح کا یورپ ہے جسے خانہ جنگی نے تباہ کردیا ہے۔
ایشیا یا برصغیر میں سب سے پہلے سری لنکا میں ایک عورت حکمران بنی۔ سری لنکا کی عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی تھی۔ آپ کو سری لنکا کی ثقافت کی ایک مثال دیتا ہوں۔ کینڈی شہر کا نام تو کرکٹ کے چاہنے والوں نے سنا ہی ہو گا۔ ہم جب سری لنکا گئے تو کینڈی میں ہمارا ایک فادر واقف تھا اور پھر کولمبو اور کینڈی میں جنگل کے اندر انگریزوں نے ایک ریل لائین بچھائی جس پر سفر کرنا ایک بہت ہی دلچسپ تجربہ ہے اور میں دوستوں کو اکثر کہتا ہوں کہ اس پر ضرور سفر کریں۔ ہمیں جاتی بار ٹرین کا ٹکٹ نہیں ملا تو ہم نے بس پر جانے کا فیصلہ کیا۔ میرے ساتھ ایک لڑکا بیٹھا تھا جس نے باتوں باتوں میں بتایا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کے والدین نے محبت کی شادی کی تھی۔ سری لنکا میں حالیہ دہشت گردی کا الزام مسلمانوں کی توحید جماعت پر لگایا جا رہا ہے، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس دہشت گردی میں سری لنکا کے ایک ارب پتی مسلمان کے دو بیٹوں نے حصہ لیا (اس جماعت کے لوگ پہلے بھی مہاتما بدھ کے مجسموں کی بے حرمتی کر چکے ہیں)۔ یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے ان حملوں کی پیشگی اطلاح سری لنکن سرکار کو دے دی تھی۔ سری لنکا میں عیسائیوں کے مذہبی تہوار پر منظم دہشت گردی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مذہبی دہشت گردی کی جڑیں کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں؟ جب تک ساری دنیا کسی بھی مذہب کے نام پر انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے جنگ نہیں کرے گی، اس وقت تک اسے ختم کرنا ممکن نہیں لیکن بدقسمتی سے امریکہ آج بھی مبینہ طور پر مذہبی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی حمایت کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سری لنکا دھماکوں میں ڈینش ارب پتی کے تین بیٹے ہلاک
یہ ساری کتھا بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ اپنے ایک عمل سے دنیا کو مسلمانوں کے خلاف ابھار سکتا ہے اور یوں امن پسند مسلمان اکثریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔