ملا، ریاست گٹھ جوڑ اور کرونا وائرس

ملا، ریاست گٹھ جوڑ اور کرونا وائرس
عمومی طور پر ماہِ رمضان جب قریب آتا ہے تو پاکستان میں چاند دیکھنے کے عمل کے مسئلہ پر تہلکہ مچ جاتا ہے ۔ کئی سالوں سے یہ تنازع چلا آرہا ہے جس میں ایک طرف وہ عالمِ دین ہیں جو کہ صرف خاص شہادتوں کو قبول کرتے ہیں تو دوسری طر ف عام لوگ چاند کو دیکھنے پر رمضان شروع کرنے کا علان کر لیتے ہیں ، خاص طور پر پختونخوا میں ۔ اس سے قطع نظر کہ سائنس ایسے معاملات کو بے حد آسان بناچکی ہے، سوال یہ ہے کہ باقی مسلم ممالک میں ایسے تنازع کی خبر کیوں نہیں ملتی؟ ایران اور سعودی عرب میں مذہبی حلقوں کی باقائدہ حکومتیں قائم ہیں مگر ادھربھی چاند دیکھنے کا عمل اتنا پیچیدہ نہیں ہوتا جتنا کہ خدا دادِ پاکستان میں ہوتا ہے ۔

اور نہیں تو اس سال چاند دیکھنے کا مسئلہ پس منظر میں چلا گیا ہے کیونکہ اس سے بھی بڑا تنازع پاکستان کے حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔ دنیا بھر میں کرونا وائرس اورلاک ڈاؤن پر مختلف طرز کے فیصلے کئے جارہے ہیں لیکن ہمارے ہاں اب سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ ماہِ رمضان میں عام شہریوں کو مسجد جانے کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں،ہمارے ملک میں معاشی لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں غریب عوام کا بھوک سے مر جانے کا خدشہ ہے لیکن مساجد کھولنے کے فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم  نے غریبوں کی معاشی بدحالی کا حوالہ تک نہیں دیا۔ اگر حکومت کی حقیقی معنوں میں ترجیح غریبوں کی امداد کرنا ہے تو ان کو اس بات پر توجہ دینا ہوگی کہ احساس پروگرام کے پیس اور اس کے ساتھ ساتھ رمضان میں راشن ہر گھرانے تک کیسے پہنچائے جائیں۔ مساجد میں لوگوں کو جمع کرنے سے محض وائرس کے پھیلاؤں سے غریب عوام کا متاثر ہونے کا امکان بڑھے گا۔

ویسے تو موجود تنازع میں پی ٹی آئی اور عمران خان صاحب منظر عام پر ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مذہب اور ریاست کا یہ دیرینہ مسئلہ اس حکومت کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ ریاست کے غیر منتخب اداروں سے ہمیں زیادہ کھل کر اس مسئلہ پر سوال کرنے کی ضرورت ہے۔ اعلی عدلیہ نے گزشتہ دنوں کرونا سے نمٹنے کے لیے حکومت کی حکمت عملی پر تنقید کی مگر رمضان میں مساجد کے کھلے رکھنے کے حوالے سے کوئی مداخلت نہیں کی۔ عدلیہ سے زیادہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا مذہبی حلقوں سے تعلق اور اثر ہے، لیکن اس طرف بھی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔

در اصل جب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ پاکستان آزاد ملک ہے تو وہ سب کی بات نہیں کرتے۔ یہاں پر مذہب اور ریاست کے بارے میں تنقیدی نکتہ نظر رکھنے والوں کو ہمیشہ ”قومی سلامتی“ کے لیے خطرہ تصور کیا گیا۔ہمسائیہ مملک کے ساتھ دوستی کرنا بھی خطرناک، صحت اور تعلیم پر خرچ کرنا اور دفاعی بجٹ کم کرنا بھی خطرناک، پارلیمان کو با اختیار اور ریاست کے غیر منتخب اداروں کو حد میں رہنے کا مطالبہ بھی خطرناک اور مجموعی طو ر پر طاقتور حلقوں کی پالیسوں پر عام شہریوں کا سوال کرنا بھی خطرناک۔

کرونا کی وباء کے سامنے دنیا کی سب سے طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی قومی سلامتی کی پالیساں ناکام ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کی کھوکلہ نعرہ بازی سے کتنا نقصان ہوتا ہے وقت ہی بتائے گا مگر پاکستان میں ”آزاد ملک“ کا نعرہ لگانا عوام کے ساتھ زیادہ ہی تکلیف دہ مذاق ہے۔ عام حالات میں بھی حکومت قرضوں پر چلتی ہے اور آج کل تو ہر طرف سے پیسے مانگے جارہے ہیں۔ کیا یہ آزاد ملک کی نشانی ہے؟ کیا امریکہ اور سعودی عرب کی سرپرستی میں جنگیں لڑنا آزاد ملک کی نشانی ہے؟

اس رمضان بھی اور آنے والے وقت میں بھی پاکستان اور سب سے زیادہ اس کے محنت کش عوام، عورتوں، مذہبی اقلیتوں، مظلوم اقوام اور دیگر استحصال زدہ حلقوں کا فائدہ اس بات میں ہے کہ مذہب اور ریاست جیسے معاملات پر بحث کو خطر ہ نہیں بلکہ صحت مند سماج کی تعمیر کالازمی جز تصور کیا جائے۔ صدر عارف علوی جب کہتے ہیں کہ مساجد جانے والے شہریوں کی زمہ داری ہے کہ وہ ”سوشل ڈسٹنسنگ“ کے اصول کا احترام کریں تو وہ اس بات کو بھلا دیتے ہیں کہ پاکستان کے بیشتر شہریوں کا مخصوس تصور ِ کائنات ہے جو کہ ایسے نعروں میں ظاہر ہوتا ہے کہ ”کرونااسلام کیخلاف خلاف سازش ہے“ یا ”کرونا ہمارے گناہوں کی خدا کی طرف سے سزا ہے“۔

اس تصور کو وقت ہی تبدیل کر سکتا ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ حکمران، موجودہ اور مستقل دونو، تسلیم کریں کہ 70سال سے زائد عرصے میں مذہب کو سیاسی ہتھیا ر بنانے کی پالیسی سے وسیع تر عوامی حلقوں کو نقصان ہوا ہے۔
شائد اس بات کی توقع رکھنا فضول ہے کہ ہمارے حکمران کچھ بھی تاریخ سے سیکھنے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان واحد ملک نہیں ہے کہ جس میں کرونا وباء سے فرسودہ اور عوام دشمن معاشی و سیاسی نظام کے تضادات بے نقاب ہونے کے باوجود فوجی، مالیاتی اور مذہبی اسٹیبلشمنٹ کا احتساب کے لیے عوام کی منظم قوت موجود نہیں ہے۔ ہندوستان پر نظر ڈالیں تو وہاں پر مذہبی نفرتیں بد ترین طریقہ سے بڑھائی جارہی ہیں اور سوچنے سمجھنے والے ہر انسان کو یہ فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ خاموش رہے گا یا بڑھتے ہوئے ظلم و جبر کی لہر کیخلاف سیاسی جدو جہد کا رستہ اختیار کرے گا۔ پاکستان میں شروع دن سے بہادر لوگ رہے ہیں جنہوں نے مذہب کے سیاسی استعمال کیخلاف آواز بلند کی ہے۔

اور آج بھی کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہب اور ریاست کو الگ کرنے کے ساتھ ساتھ امن، برابری، رواداری اور ایسے تمام اہداف کے لیے ہمارے ملک کے تمام سوچنے سمجھنے والے حلقے جدو جہد کا حصہ بنیں۔

مصنّف قائد اعظم یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعت عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بھی ہیں۔