تاروں سے بھرا آسمان اور پورن ماشی کا چاند پوری آب و تاب سے یوں جگمگاتا ہے جیسے کوئی شاہِ زمان اپنے دیدار عام کو جلوہ افروز ہوتا ہے۔ زبان و لسان کے کرشمات کے ساتھ فلسفہ و فکر و خیال کی معجزہ آرائی، افق تا افق کائنات کے اسرار اور حضرت آدمؑ کے دم قدم سے آباد دنیائے رنگ و بو کی جولاں انگیزی اقبال کے اشعار میں جگمگاتے ہیروں کی مانند آنکھوں کو خیرہ کر دیتی اور دل و دماغ کو متاثر کرتی ہے۔ میر و غالب کے بعد بلاشبہ اقبال 19 ویں صدی کے آسمان سخن کا تنہا آفتاب ہے جس کی کرنوں سے آنے والے زمانے منور ہیں اور اُن کے سخن سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ چاہے وہ ترقی پسند تحریک ہو یا ادبی دنیا کے دیگر بزرجمہر، وہ کسی بھی طور سے اُن سے پہلو تہی نہیں کر سکتے۔ شاعر انقلاب و رومان فیض احمد فیض نے اقبال پر اپنی ایک نظم میں انہیں کچھ اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے؛
آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیا
سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
ویراں میکدوں کا نصیبہ سنور گیا
تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
اب دور جا چکا ہے وہ شاہ گدا نما
یہ اُس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے
اور اس کی لے سے سینکڑوں لذت شناس ہیں
وہ شاہِ گدا نما جب اپنے رومانی جذبات کے سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے تو کناروں کی جانب بڑھتے ہوئے کئی بار ہار جاتا ہے۔ اپنی جرمن محبوبہ کو ایک خط میں اقبال لکھتا ہے کہ؛
"میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا۔ آپ تصور کر سکتی ہیں کہ میری روح میں کیا ہے۔ میری بہت بڑی خواہش ہے کہ میں دوبارہ آپ سے بات کر سکوں اور آپ کو دیکھ سکوں۔ لیکن میں نہیں جانتا کیا کروں۔ جو شخص آپ سے دوستی کر چکا ہو، اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ آپ کے بغیر جی سکے، براہِ کرم میں نے جو لکھا ہے اس کے لیے مجھے معاف فرمائیے"۔
یہ خط علامہ محمد اقبال کے ایما ویگے ناسٹ کے نام جرمن زبان میں لکھے گئے متعدد خطوط میں سے ایک ہے۔ ایما سے اقبال کی ملاقات دریائے نیکر کے کنارے واقع سرسبز و شاداب مناظر سے مالامال قصبے ہائیڈل برگ میں ہوئی تھی۔ ایک تو ماحول رومان پرور، اوپر سے اقبال بھرپور جوانی کے عالم میں اور پھر حسین وجمیل ایما۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ ایک ہندوستانی شاعر کا دل ان پر آ گیا، حیرت تب ہوتی اگر یہ دل ان پر نہ آتا۔
اقبال کی نظم 'ایک شام' سے ان کے جذبات کا اندازہ ہوتا ہے؛
خاموش ہے چاندنی قمر کی
شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی
وادی کے نوا فروش خاموش
کہسار کے سبز پوش خاموش
فطرت بے ہوش ہو گئی ہے
آغوش میں شب کے سو گئی ہے
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے
نیکر کا خرام بھی سکوں ہے
اے دل تُو بھی خموش ہو جا
آغوش میں غم کو لے کے سو جا
اقبال کا خط ایما کے نام؛
"برائے کرم اپنے اس دوست کو مت بھولیے جو ہمیشہ آپ کو اپنے دل میں رکھتا ہے، جو آپ کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ہائیڈل برگ میں میرا قیام ایک خوبصورت خواب سا لگتا ہے اور میں اس خواب کو دہرانا چاہتا ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ آپ خوب جانتی ہیں"۔
2 جنوری 1908 کو انہوں نے لندن سے ایما کے نام ایک اور خط میں لکھا؛
"میں یہ سمجھا ہوں کہ آپ میرے ساتھ مزید خط و کتابت نہیں کرنا چاہتیں اور اس بات سے مجھے بڑا دکھ ہوا ہے۔ اب پھر آپ کا خط موصول ہوا ہے جس سے مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے۔ میں ہمیشہ آپ کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں اور میرا دل ہمیشہ بڑے خوبصورت خیالوں سے معمور رہتا ہے۔ ایک شرارے سے شعلہ اٹھتا ہے اور ایک شعلے سے ایک بڑا الاؤ روشن ہو جاتا ہے۔ لیکن آپ سرد مہر ہیں۔ غفلت شعار ہیں۔ آپ جو جی میں آئے کیجیے۔ میں کچھ نہ کہوں گا۔ ہمیشہ صابر و شاکر رہوں گا"۔
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم
اقبال اُس وقت ناصرف شادی شدہ تھے بلکہ دو بچوں کے باپ بھی بن چکے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ والدین کی پسند سے کریم بی بی سے ہونے والی شادی سے وہ سخت ناخوش تھے۔
ایما کے نام جولائی 1912 کو ایک خط میں انہوں نے لکھا؛
"میں نے والد صاحب کو لکھ دیا ہے کہ انہیں میری شادی طے کرنے کا حق نہیں تھا۔ خصوصاً جب کہ میں نے پہلے ہی اس قسم کے کسی بندھن میں گرفتار ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ میں اُس کی کفالت کے لیے تیار ہوں لیکن اُس کو ساتھ رکھ کر اپنی زندگی کو عذاب بنا لینے کے لئے بالکل تیار نہیں ہوں۔ ایک انسان کی حیثیت سے مجھے بھی خوش رہنے کا حق حاصل ہے۔ اگر سماج یا قدرت مجھے یہ حق دینے سے انکار کرتے ہیں تو میں دونوں کا باغی ہوں۔ اب صرف ایک ہی تدبیر ہے کہ میں اس بدبخت ملک سے چلا جاؤں یا پھر شراب میں پناہ لوں جس سے خودکشی آسان ہو جاتی ہے"۔
۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر
خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں
صورتِ دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں
شیشہء دہر میں مانند مے ناب ہے عشق
روح خورشید ہے خون رگ مہتاب ہے عشق
دل کے ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اِس کی
نُور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی
کہیں سامانِ مسرت کہیں سار غم ہے
کہیں گوہر ہے کہیں شبنم ہے
شورش کاشمیری 'اُس بازار میں' میں لکھتے ہیں؛
"گذشتہ زمانوں کے لوگ طوائف کو ایک ثقافتی ادارہ سمجھ کر اُس کے ہاں آتے تھے (کیسے بھلے زمانے تھے)، اُن کا معاملہ بدن کا نہ تھا، تہذیب کا تھا۔ چنانچہ سرسید نہایت شوق سے گانا سنتے تھے۔ بلکہ ایک طوائف نے علی گڑھ یونیورسٹی کو ایک بڑی رقم بطور چندہ عطا کی (اور جب کچھ جہلا کرام نے اعتراض کیا کہ یہ 'گندی رقم' ہے تو سرسید نے کہا تھا کہ "فکر نہ کیجئے اس سے ہم گندی جگہیں یعنی ٹائلٹ وغیرہ تعمیر کرائیں گے")۔ مولانا شبلی، عبدالحلیم شرر، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی، یہ بزرگ زعما گانا سننے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال کی محبوبہ امیر بائی اور پھر ہمارے اخلاق کی اصلاح کرنے والے بزرگ اکبر الہٰ آبادی نے ایک طوائف بوٹا بیگم سے نکاح پڑھوایا تھا۔ آغا حشر نے مختار بیگم کے عشق میں ڈرامے لکھے تھے۔ امیر بائی سے جب کبھی اقبال کا ذکر آتا تو وہ مسکرا دیا کرتے۔ شورش نے ایک ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ؛
"21 اپریل 1948 کی شب پاکستان میں پہلا 'یومِ اقبال' تھا۔ ادھر یونیورسٹی میں حکیم الامت کے عقیدت مند فلسفہ خودی چھانٹ رہے تھے۔ اُدھر ریڈیو پر کلامِ اقبال نشر ہو رہا تھا اور کہیں کہیں فٹ پاتھ پر خوش لحن فقیر 'ساقی نامہ' الاپ رہے تھے، 'گیا دورِ سرمایہ داری گیا' علامہ اقبال آغازِ جوانی میں اس امیر بائی کی آواز کے معترف تھے اور (عین ممکن ہے وہ بھی یومِ اقبال منا رہی ہو)، امیر بائی کی بیٹیاں جن کا آفتاب ان دنوں نصف النہار پر ہے خوبصورت کبوتریوں کی طرح غٹر غوں غڑغوں کر رہی تھیں۔ جب پشتی رنڈیاں اُن کے ہاں مدعو تھیں۔ تمام احاطہ بُقعہ نُور بنا ہوا تھا۔ جیسے اپسرائوں کا کوئی غول ستاروں سمیت کرہ ارض کی اس ٹکڑی پر اتر آیا ہو۔ امیر بائی 66 برس کے سِن میں ہے۔ ممکن ہے کبھی خوب رُو رہی ہو مگر اب عمر رفتہ کا ایک جھوٹا جھول رہی ہے۔ یا نظر بہ نظر چچوڑی ہوئی ہڈیوں کا ایک ڈھیر جس میں دھوئیں کی سڑاند رہ گئی ہے، رنگ سنولا چکا ہے۔ بلکہ سیاہ ہوتا جا رہا ہے۔ بال سفید ہو چکے ہیں ۔ دانتوں میں کھڑیاں نکل آئی ہیں اور لہجہ مریل ہو چکا ہے۔
الہٰی جان نے کہا، 'خالہ یہ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں'۔ ہم نے سوال کیا تو اس کے بوڑھے چہرے کی جھریاں مسکرائیں۔ جیسے کسی گمشدہ کہانی کے الفاظ بکھر گئے ہیں اور وہ انہیں ایکا ایکی جوڑ دینا چاہتی ہے۔ اقبال کے نام سے اُس کی بجھی ہوئی آنکھوں میں ایک نور سا جاگ اٹھا لیکن بسرعت مدھم ہو گیا۔ گویا ایک چپ سو سکھ۔ اس نے کچھ قبول نہ کیا۔ ہمارا اصرار بڑھا تواس نے قدرے جھنجھلا کر کہا، 'ہمارے ہاں مردوں کے کفن پھاڑنے کا رواج نہیں'۔"
ساقی نامہ
حقیقت خرافات میں کھو گئی
شاید اُمت روایات میں کھو گئی
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اقبال کو 1923 میں 'سر' کا خطاب ملا تھا (کنگ جارج فائیو نے علامہ محمد اقبال کو سر کا خطاب دیا)، 1920 میں لوگوں نے انہیں 'علامہ'، 'شاعرِ مشرق' وغیرہ کہنا شروع کر دیا تھا۔ جب علامہ اقبال کو 'سر' کا خطاب ملا تو ان کے مداحین اور دوست احباب چونک اٹھے، انہوں نے جلیانوالہ باغ کے خونی حادثہ پر کوئی نظم نہیں لکھی اور نہ ہی سر کا خطاب واپس کیا تھا بلکہ شاید انہیں اس خاموشی پر ہی سر کا خطاب دیا گیا تھا۔ جبکہ اسی خونی واقعہ پر ردعمل کا اظہار کرتے اور احتجاج کرتے ہوئے رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنا 'نائٹ ہڈ' کا خطاب واپس کر دیا تھا۔
لینن خدا کے حضور میں
وہ کون سا آدم ہے کہ تُو جس کا ہے معبود
وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیر سماوات
تُو قادر وعادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہء مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
اقبال کی رومانی نگاہ ایک اور معروف ممتاز عورت کے سراپا کا طواف بھی کرتی رہی جس کا نام عطیہ فیضی تھا۔
عطیہ فیضی بمبئی کے ایک متموۤل خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے والد حسن آفندی بڑے تاجر تھے جو دوسرے ممالک کا سفر کرتے رہتے تھے۔ وہ روشن خیال تھے۔ انہوں نے ناصرف اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی بلکہ ان پر پردہ کرنے کا دباؤ بھی نہیں ڈالا۔ اس گھٹے ہوئے ہندوستانی معاشرے میں یہ بات انوکھی تھی کہ ایک خاتون جو نا صرف بے حد پڑھی لکھی ہے بلکہ مردوں کی محفل میں بیٹھ کر اُن سے برابر کی سطح پر مکالمہ بھی کر سکتی ہے۔ عطیہ نے اقبال کے علاوہ شبلی نعمانی کو بھی متاثر کیا تھا۔
اقبال نے کیمرج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انہوں نے ایران میں 'مابعدالطبعیات کا ارتقا' نامی مقالہ لکھا اور اب وہ اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کے مشورے سے اسی مقالے پر جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے 1907 کے موسمِ بہار میں جرمنی کا سفر اختیار کیا تھا جہاں ان کی ملاقات ایما سے ہوئی۔ ایما 29 برس کی تھی اور اقبال سے دو سال چھوٹی جبکہ قد میں ایک انچ لمبی تھی۔ ایما کی مادری زبان جرمن تھی لیکن وہ یونانی اور فرانسیسی زبان سے بھی خوب واقف تھی۔ وہ فلسفے اور شاعری سے بھی خاصا شغف رکھتی تھی جو اس کے اور اقبال کے درمیان وجہ اشتراک بھی تھی۔ ہر طور اپنے منفرد خیالات کے حامل اقبال نے ایک خط میں لکھا ہے کہ؛
"انگریز عورت میں وہ نسائیت اور بے ساختگی نہیں جو جرمن عورت میں ہے۔ جرمن عورت ایشیائی عورت جیسی ہے۔ اس میں محبت کی گرمی ہے۔ انگریز عورت میں یہ گرمی نہیں۔ انگریز عورت گھریلو زندگی اور اس کی بندشوں کی اس طرح شیدا نہیں جس طرح جرمن عورت ہے"۔
عطیہ فیضی نے ہائیڈل برگ میں جس اقبال کو دیکھا اس سے وہ حیران رہ گئیں۔ وہ اپنی کتاب 'اقبال' میں لکھتی ہیں؛ "یہ اُس اقبال سے قطعی مختلف تھا، جسے میں نے لندن میں دیکھا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے جرمنی ان کے وجود کے اندر سما گیا ہے اور وہ درختوں کے نیچے سے گزرتے ہوئے اور گھاس پر چلتے ہوئے علم کشید کر رہے تھے۔ اقبال کا یہ پہلو میرے لیے بالکل انوکھا تھا۔ لندن میں جو ایک قنوطی روح ان میں حلول کر گئی تھی، وہ یہاں یکسر غائب ہو گئی تھی۔ اقبال یہاں جرمن زبان سیکھنے کے علاوہ رقص، موسیقی، کشتی رانی اور ہائیکنگ کے درس بھی لے رہے تھے۔ انہوں نے کشتی رانی کے ایک مقابلے میں بھی حصہ لیا تھا"۔
ایما نے ایک دن اوپرا گانا شروع کر دیا۔ اقبال نے ان کا ساتھ دینا چاہا لیکن مغربی موسیقی سے ناواقفیت کی بنا پر بے سُرے ہو گئے۔ ایما کے نام انگریزی میں لکھے گئے ایک خط میں اقبال نے لکھا ہے کہ؛
'میں جرمن زبان بھولتا جا رہا ہوں
صرف ایک لفظ یاد رہ گیا وہ ہے 'ایما'۔۔۔
موسیقی کے علاوہ مغربی رقص بھی اقبال کی دسترس سے باہر تھا۔ اقبال ایما کے ساتھ رقص بھی کیا کرتے تھے لیکن ایسے اناڑی پن کے ساتھ کہ ان کے قدم اکثر اوچھے پڑتے تھے۔
اقبال ایما سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ ایما 1908 کے لگ بھگ ہندوستان جانا چاہتی تھی لیکن ان کے بڑے بھائی اور خاندان کے سربراہ کارل نے انہیں دور دراز ملک میں تنہا جانے سے منع کیا تھا۔ اقبال کے وجود پر ایما اپنا جادو پھونک چکی تھی اور وہ اپنی 'خودی' کا بستہ بغل میں داب کر ایما کے لیے سرتاپا فریاد اور درد میں ڈوبی ہوئی پکار بن چکے تھے۔ خودی کو بلند کرنا تو درکنار، ان کے دل و دماغ میں کوئی دوسرا خیال راہ نہ پا سکا۔ انہوں نے اپنی محبوبہ سے بہ زبان سخن یہ درخواست کی؛
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
ایما سے اقبال کے تعلق کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تاہم ایما نے اقبال کی شاعری میں وہ کسک اور دردمندی پیدا کر دی جس سے ان کی شاعری عبارت ہے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام میں کئی نظمیں ایسی ہیں جو اس دور کی یادگار ہیں۔ چاند اور تارے، ۔۔۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر، کلی، وصال، سلیمن، عاشق ہرجائی، جلوہ حسن، اختر صبح، تنہائی اور دیگر کئی نظمیں شامل ہیں جن پر ایما سے تعلق کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔
علامہ اقبال کی تین شادیاں ہوئی تھیں۔ پہلی شادی کریم بی بی کے ساتھ ہوئی، جن کا تعلق گجرات سے تھا۔ 1893 میں یہ شادی رواج کے مطابق ان کے بزرگوں نے طے کی تھی۔ وہ اس شادی پر راضی نہ تھے۔ چونکہ ان کی عمر 16 برس تھی اس لیے بزرگوں کے احترام کے پیش نظر کچھ بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ شادی کے پہلے دو سال سیالکوٹ میں گزار کر مزید تعلیم حاصل کرنے لاہور چلے گئے۔ اس دوران کریم بی بی نے زیادہ وقت میکے میں گزارا۔ اس دوران اقبال کی بیٹی معراج بیگم اور 1898 میں آفتاب اقبال پیدا ہوئے۔ 1900 سے 1905 تک پانچ سالہ ملازمت کے دوران جب اقبال نے بھاٹی گیٹ والے مکان میں رہائش اختیار کی تو کریم بی بی نے ان کے ساتھ مکان میں قیام نہ کیا۔ کریم بی بی کے ساتھ کشیدگی کی ابتدا انہی ایام میں ہو گئی تھی۔ بغیر طلاق کے چارہ نہ رہا۔
علیحدگی کی اصل وجہ زوجین کے طبائع میں عدم مناسبت بتائی جاتی ہے۔ اس شادی کا اصل نقصان بچوں کو ہوا جو والد کی شفقت سے محروم ہو گئے۔ کریم بی بی کا انتقال 1947 میں ہوا اور ان کو لاہور کے معراج دین قبرستان میں دفن کیا گیا تھا۔
علامہ اقبال کی دوسری شادی 1910 میں کشمیری خاندان کی صاحبزادی سردار بیگم سے ہوئی۔ نکاح ہوا مگر رخصتی عمل میں نہ آئی۔ اس کے التوا کی وجہ یہ تھی کہ اقبال کو دو گم نام خطوط موصول ہوئے جن میں سردار بیگم کے چال چلن پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔ اقبال نے ارادہ کر لیا کہ سردار بیگم کو طلاق دے کر کہیں اور شادی کی کوشش کریں گے۔ اسی دوران اقبال کے ایک پرانے دوست سید بشیر حیدر جو ان دنوں ایکسائز انسپکٹر لدھیانہ تھے، لدھیانہ کے ایک کشمیری خاندان کی صاحبزادی مختار بیگم کے رشتے کا پیغام لے کر آ گئے۔ مختار بیگم کا خاندان 'نولکھیوں' کا خاندان کہلاتا تھا۔ اسی اثنا میں سردار بیگم سے متعلق خطوط کی تحقیق کرائی گئی تو معلوم پڑا کہ وہ خطوط ایک وکیل نے تحریر کیے تھے جو سردار بیگم کی شادی اپنے بیٹے سے کرانا چاہتا تھا۔ سردار بیگم سے اگست یا ستمبر 1913 میں دوبارہ نکاح پڑھوایا گیا (حلالہ کس سے ہوا تھا، یہ اخفا میں رکھا گیا ہے)۔
انارکلی بازار والے مکان میں دونوں بیگمات یعنی مختار بیگم اور سردار بیگم اکٹھی ہوئیں تو دونوں میں ایسی محبت پیدا ہوئی جو بہنوں میں بھی نہیں ہوتی۔ مختار بیگم 1924 میں لدھیانہ میں وفات پا گئیں۔ اقبال نے ان کی نماز جنازہ بھی خود پڑھائی۔ سردار بیگم کے بطن سے جاوید اقبال اور منیرہ پیدا ہوئے۔ پہلی بیوی سے اقبال کے بیٹے آفتاب اقبال اپنی والدہ کو مظلوم اور والد کو ظالم سمجھتے تھے۔
کیا علامہ اقبال احمدی تھے؟
علامہ اقبال اپنی زندگی میں کسی مرحلے پر کبھی احمدی بھی رہے تھے یا نہیں، یہ ایک ایسی بحث ہے جو علامہ اقبال کی وفات کے 78 سال بعد بھی جاری ہے۔ اکثریت اسے جھوٹ اور افترا سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اقبال کبھی بھی احمدی نہیں رہے اور یہ کہنا کہ اقبال احمدی تھے محض احمدیوں کا بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔ جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے تو ان کا کہنا ہے کہ اقبال نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ احمدی کے طور پر گزارا اور احمدیت سے قطع تعلق اگر انہوں نے کیا تو یہ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں کیا تھا۔ احمدیوں کا مؤقف ہے کہ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطاء محمد معروف احمدی تھے اور اقبال چونکہ اپنے بڑے بھائی کا بہت زیادہ احترم کیا کرتے تھے، اس لیے اقبال نے احمدیت کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔ شیخ عطاء محمد کی اولاد آج بھی احمدی ہے۔ ہو سکتا ہے اقبال اوائل عمری میں احمدیت سے متاثر رہے ہوں اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنے بیٹے آفتاب اقبال کو بغرض تعلیم قادیان بھیجا تھا۔ لیکن آخری عمر میں انہوں نے احمدیت سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ گو کہ اس قطع تعلق کے پس پشت سر ظفر اللہ خان سے ذاتی تنازعہ تھا۔
علامہ اقبال کا خاندانی پس منظر
علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد ایک سادہ لوح اور ان پڑھ انسان تھے۔ ان کی شادی موضع سمبڑیال کے ایک کشمیری گھرانے میں امام بی بی سے ہوئی تھی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ان کے سسرال والے سیالکوٹ آ گئے اور یہاں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ شیخ نور محمد کو عرف عام میں 'نتھو' کہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان کی پیدائش سے پہلے ان کے والد کے ہاں دس لڑکے اوپر تلے فوت ہو گئے تھے۔ شیخ نور محمد کی پیدائش پر بڑی منتیں مانی گئیں تھیں اور مقامی ٹوٹکے کے مطابق ان کی ناک چھدوا کر سونے یا چاندی کی نتھ پہنا دی گئی تھی۔ اس نتھ کی وجہ سے لوگ انہیں نتھو کہتے تھے جبکہ خاندان میں انہیں 'میاں جی' کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ایک غیر مصدقہ روایت کے مطابق انہیں 'نورا افیمی' بھی پکارا جاتا رہا ہے۔
شیخ نور محمد کے ہاں دو بیٹوں کی ولادت ہوئی۔ 1860 میں شیخ عطاء محمد اور 1877 میں شیخ محمد اقبال پیدا ہوئے۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد 90 برس کی عمر میں 17 اگست 1930 کو وفات پا گئے۔ شیخ نور محمد وزیر بلگرامی کے ہاں کپڑے سینے کی ملازمت کرتے تھے۔ لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر انہوں نے یہ ملازمت ترک کر دی اور اپنی گزر اوقات کے لیے کُرتے بنانا شروع کر دیے۔ انہوں نے برقعوں کی ٹوپیاں بنانے کا کاروبار شرع کیا جو بہت چمکا اور اس کاروبار نے اتنی ترقی کی کہ اس کام کے لیے انہیں ملازم رکھنا پڑے۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں
بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تُو پہچان
اپنے عہد کی سب سے بڑی مغنیہ ملکہ ترنم نورجہاں جب اپنی خاص اداؤں اور بازوؤں کے بھاؤ تاؤ کے ساتھ ابروؤں کے اشاروں سے اپنے ہونٹوں سے اقبال کے اشعار گنگناتی ہے تو یقین واثق ہے کہ جنت الفردوس میں براجمان علامہ اقبال اس مغنیہ کی آواز میں اپنے کلام کو سُن کر مدہوش ہو جاتے ہوں گے اور اپنے ساقی نامہ کے یہ اشعار گنگناتے ہوں گے؛
شرابِ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا