PMDA بل پارلیمنٹ میں پیش: 'بیوروکریسی کے ذریعے مارشل لاء'

PMDA بل پارلیمنٹ میں پیش: 'بیوروکریسی کے ذریعے مارشل لاء'
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں الیکٹرانک میڈیا، اخبارات، ڈیجیٹل میڈیا اور میڈیا سے منسلک دیگر پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک نئے ادارے 'پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی' کے قیام کے لیے بل جمعے کو قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نئی اتھارٹی کے قیام سے میڈیا کی آزادی، غیر جانب داری اور صحافتی اقدار کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا لیکن دوسری جانب صحافتی تنظیموں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور اپوزیشن کی بعض سیاسی جماعتوں نے اس بل پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ملک گیر یونین نے گزشتہ روز ایک مظاہرے میں اعلان کیا کہ اس آرڈیننس سے ملک میں اظہار رائے پر مزید قدعنیں بڑھ جائیں گی اور پی ایف یو جے نہ صرف ملک بھر میں مظاہرے کریگی بلکہ اس کے ساتھ پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا بھی دے گی۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابقہ صدر اور بابائے صحافت کے نام سے مشہور افضل بٹ نے کہا کہ موجودہ حکومت میں نہ صرف اظہار رائے پر قدعنیں بڑھی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تنقیدی آوازوں کو بھی ایک ایک کرکے سکرین سے غائب کردیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پی ایف یو جے کی مشاورت جاری ہے اور اس سلسلے میں جلد ہی لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔  پی ایف یو جے اگر ملک بھر میں دھرنوں کی کال دیگی تو ہم اسلام آباد میں پارلیمنٹ کا رخ کرینگے کیونکہ اس وقت  ملک میں نہ صرف میڈیا پر قدعنیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ صحافیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ اب حالات یہ ہوگئے ہیں کہ صحافیوں کو گھر میں گھس کر نشانہ بنایا جارہا ہے.

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک لسٹ وائرل ہوئی جس میں اس ادارے میں تعینات ہونے والوں کے نام تھے اور ان ناموں پر ملک میں سینئیر صحافیوں نے اعتراض کیا اور موقف اپنایا کہ اس ادارے میں تعینات ہونے والے ملازمین کا تعلق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ سے ہے مگر حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے گزشتہ روز ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ کارکنان کے ساتھ ملاقات کے بعد بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا اس آرڈیننس سے اظہار رائے پر قدعنیں لگانے کا کوئی ارادہ نہیں بلکہ میڈیا کو ایک ادارے کے تحت لایا جائے گا اور ادارے کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ میڈیا اداروں پر جرمانے عائد کریں. دوسری جانب حکومت یہ دلیل بھی سامنے لیکر آئی ہے کہ میڈیا میں کام کرنے والے ورکرز کا اداروں کی جانب سے استحصال ہوتا ہے اور اس قانون سے صحافیوں کو معاشی اور دیگر تحفظ حاصل ہونگے.

نوید قریشی (فرضی نام)  جو اسلام آباد میں گزشتہ دو دہائیوں سے صحافت کرتے ہیں کا موقف ہے کہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ یہ قانون اتنا بھی برا نہیں جتنا پیش کیا جارہا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ میڈیا میں کام کرنے والے ورکرز کا ہمیشہ استحصال ہوتا ہے اور ایسا کوئی ادارہ نہیں جو میڈیا ورکرز کو تحفظ دے سکے، اس لئے میں اس قانون سے خوش ہوں کیونکہ اس قانون کے زریعے میڈیا کے امیر ترین مالکان کے گرد گھیرا تنگ ہوگا اور میڈیا ورکرز کو معاشی تحفظ حاصل ہوگا۔

دوسری جانب میڈیا قوانین پر نظر رکھنے والے ماہرین حکومت کی اس کوشش کو میڈیا پر مارشلا لگانے کی ایک کوشش سمجھ رہے ہیں۔

ملک میں صحافیوں کے تحفظ اور میڈیا قانون سازی پر نظر رکھنے والے وکیل اور ایکٹویسٹ آفتاب عالم نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ حکومت تو بظاہر یہ موقف اپنا رہی ہے کہ وہ نئی ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرکے ڈیجیٹل میڈیا مارکیٹ سامنے لار ہی ہے مگر اس کے ارادے میڈیا پر مارشل لا لگانے کے ہیں۔

انہوں نے کہا جب بھی کسی ادارے کے حوالے سے قانون سازی کرنی ہو تو ان اداروں سے مشاورت اور ان کی نمائندگی ضروری ہوتی ہے مگر جو ادارہ بنایا جارہا ہے وہ مکمل بیوروکریسی کے کنٹرول میں ہوگا اور وہ حکومت کے احکامات کو نافذ کرنے کے لئے ہر حد تک جائیگا۔ آفتاب عالم سمجھتے ہیں کہ حکومت نے یہ موقف اپنایا تھا کہ وہ اداروں کو آزاد اور خودمختار بنائے گی مگر اس آرڈیننس میں نہ صرف اس ادارے کو بیوروکریسی کے زیر عتاب لایا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے کنٹرول میں بھی لایا گیا ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ وہی ہوگا جو حکومت چاہے گی اور یہ قانون میڈیا اور اظہار رائے پر ایک مارشل لا کے مترادف ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔