کریمہ بلوچ کی موت بلوچستان کے لیئے سانحہ: وہ سرداری نظام اور پدرشاہی معاشرے کے خلاف کھڑی ہوئیں

کریمہ بلوچ کی موت بلوچستان کے لیئے سانحہ: وہ سرداری نظام اور پدرشاہی معاشرے کے خلاف کھڑی ہوئیں





پیر کی رات دیر گئے سوشل میڈیا پر ایک خبر بلوچستان کو افسردہ کرگئی۔ یہ خبر ایسی تھی کہ جسے پڑھ اور دیکھ کر بھی کئی لوگوں نے اس لیئے دیکھی ان دیکھی کرنے کی کوشش کی کہ شاید یہ خبر جھوٹی ہو۔ بلوچستان سے سماجی کارکن جلیلہ حیدر سمیت کئی دوسرے بلوچ صحافی، طالب علم اور سماجی و انسانی حقوق کے کارکن جیسے کچھ کہہ بھی رہے تھے اور کچھ چھپا بھی رہے تھے ۔ لیکن رات کے بچے کھچے چند گھنٹے پتہ نہیں کیسے گزرے کہ صبح ہوئی تو حسب معمول بلکہ فورا اور دانستہ طورپر سوشل میڈیا کھول کر دیکھنا چاہا کہ ہوسکتا ہے رات کی بات ایک خواب ہی ہو؟ مگر سوشل میڈیا کی  تمام سائٹس پر سیاہی چھائی ہوئی تھی۔


بلوچستان اور دنیا بھر کے بلوچوں کے علاوہ کئی صارفین کی پروفائل تصاویر سیاہ تھیں۔ اور خبر ایک لاپتہ شخص کی ملی ہوئی لاش کی لگی ہوئی تھی۔  بلوچستان اور بلوچوں کے لیئے لاپتہ کا لفظ نیا  ہے اور نہ ہی لاش کی خبر۔ کیونکہ بلوچستان کی ایک ایک قبر میں کئی افراد کی لاشیں دفن ہوئیں ملتی ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے یا غیر بلوچوں کی لاشیں بھی ملتی رہی ہیں لیکن اس دفعہ بلوچستان کی طرز کا یہ واقعہ سات سمندر پار انسانی حقوق کے حوالے سے مہذب مغربی دنیا کے حصے ملک کینیڈا سے تھا۔ اور خبر یہ تھی کہ بلوچ انسانی حقوق کی کارکن اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیش کی سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی لاش دو دن لاپتہ رہنے کے بعد ٹورنٹو کے قریب ایک جھیل کنارے سے ملی ہے۔


اس سے پہلے ایک بلوچ صحافی ساجد بلوچ کی لاش مئی میں ایک مہینہ لاپتہ ہونے کے بعد سویڈن سے ملی تھی۔ ان دونوں واقعات کے بعد بلوچستان کے سیاسی، صحافتی اور انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم سرکلز میں ایک سوال شدت کے ساتھ پوچھا جارہا ہے کہ اب بلوچ جائیں تو جائیں کہاں؟ اور مغربی دنیا کے دعووں اور انسانی حقوق کے حوالے سے انتظامات پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور ایک ایسا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جیسے بلوچستان کے ہر شخص کے لیئے پاؤس کا بٹن دب چکا ہے۔


کریمہ بلوچ کی یہ خبر بھی حسب معمول پاکستانی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بلوچستان سے تعلق کی وجہ سے چل نہ سکی مگر انٹرنیشنل اور سوشل میڈیا پر ضرور زیر بحث رہی اور اب بھی خبر بنی ہوئی ہے۔ کریمہ بلوچ کی اس طرح کی موت پر کئی سوالات، شکوک شبات ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن بلوچستان میں ان حالات میں کریمہ بلوچ کے لیئے اس قدر احتجاج ، افسردگی، اور غم و پریشانی کا اظہار اور وہ بھی کھل کر اظہار کرنے کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں۔۔۔۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے۔


کریمہ نے اپنے لیئے جو راستہ چنا تھا وہ بلوچ طالب علم سیاست کے لیئے کوئی نئی اور عجیب بات نہیں تھی۔ کیونکہ بلوچستان کے کئی سیاسی طالب علم کارکن لاپتہ ہیں تو بہت ساروں کی مسخ شدہ لاشیں بھی ملی ہیں۔ بقول کریمہ بلوچ کی والدہ کے کہ جب انھیں بھی کریمہ کی موت کی خبر دی گئی تو وہ بھی نہیں روئیں کیونکہ انھیں بھی کریمہ کی سیاست اور اپنے لیئے چنے ہوئی راستے کا علم تھا۔ لیکن اس ماحول میں ایک عام بلوچ کے لیئے کریمہ کی یہ موت اس قدر دردناک کیسے ہوئی؟ اور کیونکر ہر وہ بلوچ جو کسی سرکاری اعلی ملازمت پر فائز ہو یا عام طالب علم، سب یکساں غم میں مبتلا کیوں ہیں؟


اس کیوں کی وجہ بھی کریمہ کی طلبہ سیاست ہی ہے۔ کیونکہ کریمہ نہ صرف ایک ایسی سیاست کررہی تھی اور ایک ایسی تنظیم کی رکن تھیں جو نہ صرف ریاست کے لیئے کالعدم تھی بلکہ بلوچ سرداری، جاگیرداری، اشرافیہ و طبقاتی نظام کے خلاف ایک آواز تھی۔ وہ ایک قدامت پسند کہلانے والے بلوچ معاشرے میں اس وقت طلبہ سیاست کی سرگرم قیادت بنی جب بلوچ مرد بھی خوف کے سائے میں ایسی جرات نہ کرسکے۔

وہ بلوچ خواتین کے لیئے بیداری کی وجہ بنی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو اس وقت سنھبالے رکھا جب اس تنظیم کو ناں صرف ریاست کی طرف سے پابندیوں کا سامنا تھا بلکہ سرداروں، جاگیرداروں اور اشرافیہ کے لیئے بلوچ معاشرے میں سیاسی شعور اور برابری کی بات کرتی رہی۔ پدرشائی اور سرداری نظام کو للکارتی رہی اور لاپتہ بلوچوں کے لیئے آواز بلند کرتی رہی۔


جب بلوچستان میں طلبہ سیاست  شجر ممنوعہ قرار پایا تو وہ بلوچ طلبہ کی قیادت کرنے آگے آئی اور انھیں کسی سردار کے درباری یا کسی کے الیکشن مہم میں جھنڈے لگانے سے بچانے کے لیئے بلوچ قومی تحریک اور مظلوم اقوام کی حقوق کے لیئے متحرک کرنے کے لیئے کام کرتی رہی۔ اگر ریاست اور بلوچستان کے سرداروں کا گھٹ جوڑ، بلوچستان کے اکثریتی گُڈ سرداروں کی حکمرانی اور ریاست کی پشت پنائی بجائے ان سرداروں کی، آئین و قانون اور انصاف و انسانی حقوق کی آزادی پر ہوتی تو شاید کریمہ ملک چھوڑ کر دیار غیر میں سیاسی پناہ نہ لیتی۔


کریمہ کہ موت نہ صرف ان کے تنظیم اور خاندان کے لیئے افسوس ناک ہے بلکہ ہر ایک عام انسان کے لئے جو جاگیرداری، سرداری، مافیاز، اور عورت دشمن سماج کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اور خصوصا بلوچستان جیسے زمین کے لیئے تو یہ موت کربلا سے کم نہیں جہاں ایک عام بلوچ طالب علم کے لیئے پڑھ لکھنے کے باوجود بھی کسی سردار، میر، نواب یا کسی سوداگر کے تابع ہوکر زندگی گزارنا لازم ہو تاکہ حاصل کردہ علم کسی سرکاری ٹھیکہ یا پارٹی میں عہدے کے لیئے کام آسکے۔


بلوچستان واقعی ہی غم زدہ ہے کیونکہ نہ تو کریمہ کوئی سردار تھی نہ ہی سرکاری شخصیت۔ باوجود اس کے وہ ایک عام بلوچ طالبہ تھی جو عام بلوچوں کی کئی پابندیوں کی شکار طلبہ تنظیم کی رکن اور لیڈر کے حیثیت سے اندرون بلوچستان کے جاگیرداروں، سرداروں اور سرمایہ داروں کے لیئے خطرہ تھی بلکہ آئین و قانون کی مالک ریاست کے لیئے بھی کالعدم کا درجہ رکھتی تھیں۔









لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔