رفعت اللہ اورکزئی نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت بلدیاتی الیکشن میں شکست کی وجہ غلط ٹکٹوں کی تقسیم کو قرار دے رہی ہے لیکن جن پر الزام لگا، انھیں ہی انکوائری کی ذمہ داری دیتے ہوئے کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی کی شکست کی وجہ مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل ہیں لیکن قیادت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ سب کچھ غلط ٹکٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہوا۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جن شخصیات پر بلدیاتی الیکشن میں غلط ٹکٹیں دینے کا الزام لگا ان میں وزیراعلیٰ محمود خان، وزیر دفاع پرویز خٹک، سپیکر اسد قیصر اور وفاقی وزیر مراد سعید شامل ہیں لیکن یہی لوگ اب کمیٹی کا بھی حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن میں شکست کے بعد یہ اطلاعات تھیں کہ وزیراعظم عمران خان پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ تحلیل کر دیں گے۔ جبکہ اس کے ذمہ داروں کیخلاف ایکشن لینے کی بھی بات کی جا رہی ہے۔ بیرسٹر سیف بھی اس کی تصدیق کر چکے ہیں جو لوگ بھی اس میں ملوث پائے گئے ان کیخلاف کارروائی ہوگی۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد کی واپسی کی خبروں پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا مذاق اڑانے والوں کو خود اب دوائی کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ اس لئے وہ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد جیل کی سرنگ کھود کر اس ملک سے باہر نہیں گئے تھے بلکہ کابینہ نے انھیں اس بات کی اجازت دی تھی۔ پھر لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی سب کے سامنے ہے۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے سردی بڑھ رہی ہے، اس کے برخلاف سیاسی درجہ حرارت بلند ہونا شروع ہو چکا ہے۔ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے اثرات جب پنجاب پر پڑیں گے تو ساری چیزیں کھل کر سامنے آ جائیں گی۔ اب الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے واپس آنے کی تین ہی صورتیں ہیں ایک یہ کہ اسلام آباد ہائیکورٹ، احتساب عدالت کا فیصلہ ختم کرکے اپیل کو منظور کرلے۔ اس صورت میں ان کی سزا ختم ہو جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اس کو ری ٹرائل کیلئے ریمانڈ کردے۔ تیسری یہ ہے کہ وہ سزا کے دوران ہی واپس آجائیں اور آ کر کہیں کہ میں جیل جانے کیلئے تیار ہوں۔ اس کے علاوہ ان کی واپسی کی کوئی چوتھی صورت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں نواز شریف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کے فیصلے کا انتظار کرینگے۔ تاہم قوی امکان یہی ہے کہ یہ کیس ری ٹرائل میں چلا جائے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ سزا ختم ہوگئی اور ان کا کیس دوبارہ سنا جائے گا۔ جنوری میں اس بارے میں فیصلہ ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو نواز شریف کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ عین ممکن ہے کہ پی ڈی ایم کے مارچ میں نواز شریف موجود ہوں۔