چیف سیکرٹری پنجاب یرغمال؟ یہ پی ٹی آئی کی 'جھوٹ کی فیکٹریوں کا مال ہے'، سینیئر بیوروکریٹ پھٹ پڑے

"ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، یہ سب پی ٹی آئی اور آپ کے کچھ دوستوں (میڈیا) کے دماغ کی اختراع کے سوا کچھ نہیں ہے۔"

چیف سیکرٹری پنجاب یرغمال؟ یہ پی ٹی آئی کی 'جھوٹ کی فیکٹریوں کا مال ہے'، سینیئر بیوروکریٹ پھٹ پڑے

گذشتہ روز سے پاکستان تحریک انصاف کی سینیئر قیادت کی جانب سے بار بار یہ دہرایا جا رہا ہے کہ 22 دسمبر کی رات چیف سیکرٹری پنجاب کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن دراصل انہیں یرغمال بنا کر دھونس سے جاری کروایا گیا تھا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

'نیا دور' سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب کے سینیئر بیوروکریٹس نے ناصرف پی ٹی آئی کے مؤقف کی تردید کی بلکہ اسے 'جھوٹ کی فیکٹریوں کا مال' قرار دے دیا۔

پنجاب کے ایک سینیئر بیوروکریٹ نے اس خبر کے بارے میں استفسار کرنے پر بتایا کہ 'ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، یہ سب پی ٹی آئی اور آپ کے کچھ دوستوں (میڈیا) کے دماغ کی اختراع کے سوا کچھ نہیں ہے۔'

پنجاب کے موجودہ چیف سیکرٹری عبداللہ سمبل ناصرف پنجاب کے سب سے سینیئر بیوروکریٹ ہیں بلکہ وہ ایک بہت اصول پسند فرد بھی ہیں۔ اگر ان پر کوئی دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کرتا تو وہ استعفا دے کر گھر چلے جاتے۔ یہ یرغمالی والی بات تو 'جھوٹ کی فیکٹریوں کا مال ہے'۔

سینیئر بیوروکریٹ نے مزید کہا کہ 'آپ کو پتہ ہے کہ جب ہمارے ایک آفیسر احد چیمہ کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی تو ہم نے پنجاب آفیسرز کلب میں میٹنگ کر کے فیصلہ کیا تھا کہ اگر ایسے ہی کام چلانے کی کوشش کی گئی تو ہم کام نہیں کریں گے۔ آپ کے خیال میں ہمارے صوبے کی بیوروکریسی کے سربراہ کو کوئی کمرے میں بند کر کے زبردستی آرڈر جاری کروا دیتا تو ہم چپ بیٹھے رہتے؟'

بیوروکریٹ نے دو سال قبل سندھ میں آئی جی پولیس کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'آپ نے دیکھا تھا نا کہ کیسے سندھ بھر کی پولیس اپنے کمانڈر کی حمایت میں آ کر کھڑی ہو گئی تھی حالانکہ اس واقعے کے پیچھے بھی بہت طاقتور لوگ تھے۔ لیکن جب ان کے ادارے کے سربراہ پر حملہ ہوا تو سب پولیس والے اکٹھے ہو گئے اور اگر یہاں بھی ایسا واقعہ ہوا ہوتا تو ہم کل دفتر نہ گئے ہوتے اور آپ کو نظر آ جاتا کہ کیسے جواب دیا جاتا ہے۔'

'نیا دور' کو چیف سیکرٹری آفس کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ چیف سیکرٹری نے نوٹیفکیشن جاری کرنے سے پہلے قانونی مشاورت کے لئے وقت مانگا تھا جو انہیں گورنر کی جانب سے دے دیا گیا تھا اور چیف سیکرٹری نے قانونی نقطۂ نظر سے اپنی تسلی کرنے کے بعد ہی نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ اس سلسلے میں ان پر نہ تو گورنر کی جانب سے کوئی دباؤ ڈالا گیا اور نہ ہی کسی اور 'ادارے' کی جانب سے ایسا کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کو کہا گیا تھا۔

حسن افتخار صحافی ہیں اور پورے پاکستان کے اتنخابی حلقوں کی سیاست پر ان کی گہری نظر ہے۔